Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں ڈور پھرنے سے شہری کی ہلاکت، پتنگ بازی میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی ڈور سے مبینہ طور پر شہری کے ہلاک ہونے کی واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
پنجاب پولیس کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق  تھانہ نواں کوٹ کے علاقے میں مبینہ طور پر ڈور پھرنے سے شہری نعمان جان سے گیا ہے۔
بیان کے مطابق آئی جی پنجاب کا ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو پتنگ بازی میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے اور ساتھ میں اینٹی کائٹ فلائنگ ایکٹ کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرنس، پتنگ بازی ممانعت ترمیمی بل کے قانون پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
آئی جی پولیس کی مطابق جان لیوا سرگرمی کی ہرگز اجازت نہیں، خونی دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائیں۔ 
خیال رہے کہ گلے پر ڈور پھرنے کے واقعات میں ہلاکتوں کے واقعات کے بعد پنجاب میں بسنت کے روایتی تہوار پر تقریباً دو دہائیوں سے پابندی ہے اور اب چند دن پہلے  پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگ زیب کی زیرِصدارت ایک اعلٰی سطح کے اجلاس میں فروری میں بسنت منانے کی تیاریوں کے لیے کام کمیٹیوں کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ اس میٹنگ میں ڈپٹی کمشنر لاہور کی تیار کردہ تفصیلی پریزینٹیشن نے اس عمل کو تاریخی اور انتظامی دونوں زاویوں سے اجلاس کے سامنے رکھا۔
لاہور کے 12 دروازوں کے اندر بسنت ہوگی
ابتدائی طور پر پنجاب حکومت لاہور سے بسنت کی محدود واپسی کی کوشش کرنے جا رہی ہے جہاں شہر کی تاریخی اور ثقافتی گلیاں ایک بار پھر ’بو کاٹا‘ کی آوازوں سے گونج اٹھیں گی۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے حکومت کو پیش کی گئی سفارشات میں اندرون شہر کے مخصوص علاقوں کو بسنت کے لیے منتخب کیا گیا ہے، جن میں شاہی قلعہ، موچی گیٹ، بھاٹی گیٹ اور رنگ محل جیسے زونز شامل ہیں۔ یہ فیصلہ سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کی زیرِصدارت منعقدہ اہم اجلاس میں حتمی شکل اختیار کر گیا، جہاں ’محفوظ بسنت پلان‘ کی منظوری دی گئی۔ اس پلان کے تحت بسنت کا جشن صرف دو دن تک محدود رہے گا یعنی سنیچر اور اتوار، تاکہ شہر کی رونقیں بہار کی اس روایت کے ساتھ ہم آہنگ ہوں مگر افراتفری اور حادثات سے بچا جا سکے۔
دو دہائیوں کی پابندی اور اس کی وجوہات
بسنت کی یہ واپسی ایک ایسے دور کی یاد دلاتی ہے جب آسمان میں پرواز کرنے والی پتنگوں کے سائے میں لوگ اپنی جان سے جانے لگے۔ جس کے بعد پنجاب میں گذشتہ دو دہائیوں سے بسنت پر مکمل پابندی عائد ہے، اور اس کی بنیادی وجہ تیز دھاتی، نائیلون اور کیمیکل سے تیار شدہ ڈوریں تھیں، جنہوں نے سینکڑوں قیمتی جانیں نگل لی تھیں۔
سرکاری اعداد و شمار اور تاریخی دستاویزات کے مطابق، ان خطرناک ڈوروں کی وجہ سے ہونے والے حادثات نے نہ صرف خاندانوں کو تباہ کیا بلکہ ایک پوری روایت کے خاتمے کا باعث بن گئے۔ نئی صدی کے ابتدائی چند برسوں میں لاہور اور دیگر شہروں میں بسنت کے دنوں میں ہونے والے المناک واقعات نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ اس تہوار کو روک دیا جائے، کیونکہ حفاظتی اقدامات کی کمی نے خوشی کو غم کی وجہ بنا دیا تھا۔
ماضی کے ان واقعات نے نہ صرف پتنگ بازی کو بند کیا بلکہ متعلقہ صنعت کو بھی برباد کر دیا، جہاں ہزاروں کاریگر بے روزگار ہو گئے۔
 
 

شیئر: