Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونیورسٹی میں’بھوت کا علاج سیکھیں گے‘

چھ ماہ کے کورس میں بھوت کا علاج کرنا سکھایا جائے گا۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا میں شہریت کے نئے متنازع قانون کے خلاف ملک کے بیشتر حصوں میں گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جن میں اب تک کم از کم 20 افراد کی جان بھی چلی گئی ہے۔ ایسے میں کئی ایسی بھی خبریں ہیں جن پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ایسی ہی چند دلچسپ خبریں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

مطالعہ بھوت

انڈیا کے ایک سرکردہ تعلیمی ادارے بنارس ہندو یونیورسٹی میں جہاں گذشتہ دنوں ایک طالب علم نے شہریت کے متنازع قانون کی مخالفت کرتے ہوئے ڈگری لینے سے انکار کر دیا اور جہاں گذشتہ دو ماہ سے سنسکرت کے شعبے میں ایک مسلمان پروفیسر کی تقرری کے خلاف احتجاج جاری تھا، اب وہیں سے یہ خبر آ رہی کہ وہاں آئندہ سال جنوری سے چھ ماہ کا ایک کورس شروع ہو رہا ہے جس میں بھوت کا علاج کرنا سکھایا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ’آئی اے این ایس‘ کے مطابق یونیورسٹی میں خصوصی طور پر ایک علیحدہ شعبہ ’بھوت ودی‘ یعنی گوسٹ سٹڈیز قائم کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹروں کو یہ سکھایا جائے گا کہ جو لوگ بھوت کو دیکھنے یا آسیب زدہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کا علاج کیسے کیا جائے۔
حکام نے کہا کہ اس میں سائیکوسومیٹک یعنی نفسیاتی کیفیت جس سے جذباتی عوامل پیدا ہوتے ہیں پر توجہ مرکوز کی جائے گی جسے عام طور پر غیر فطری عناصر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اس کورس کو ہندو طریقہ علاج آیوروید میں شامل کیا گیا ہے جبکہ بھوت اور آسیب کو بہت جگہ توہم پرستی خیال کیا جاتا ہے۔
انڈیا میں تقریباً 15 فیصد افراد نفسیاتی امراض کی گرفت میں ہیں جبکہ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ انڈیا کی 20 فیصد آبادی کبھی نہ کبھی ڈپریشن یا اسی قسم کے امراض کی زد میں آتی ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمان نے دنیا کے نقشے پر پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

گلوبل وارمنگ کا علاج

جب توہم پرستی کی بات چلی ہے تو بتا دیں کہ انڈیا میں بی جے پی کے سب سے کم عمر رکن پارلیمان تیجسوی سوریا نے مبینہ طور پر گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لیے ایک پوجا کی جس میں ایک سوامی جی نے دنیا کے نقشے پر پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کے اس قدم کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے ایک سنیئر وکیل برجیش کلاپپا نے لکھا، ’پنکچر والا کچھ بھی نہیں جانتا ہے اگر جنوبی بنگلورو کے ہمارے تعلیم یافتہ ایم پی سے مقابلہ کیا جائے جنھوں نے عالمی حدت کی لعنت سے پوری دنیا کو بچا کر صرف ایک نمونے کے گلوب پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر دیا۔ اگر انھوں نے ذرا اور زیادہ ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہوتا تو ہم سب آئس ایجز میں پہنچ جاتے۔‘
 
بہرحال بہت سے لوگ ان کے اس قدم کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے در اصل پانی بچانے کی مہم کے لیے یہ پوجا کی تھی۔
ویسے انڈیا میں پہلے بھی بی جے پی کے رہنما اس قسم کے دعوے کرتے رہے ہیں کہ انڈیا عہد قدیم میں پلاسٹک سرجری اور ٹیسٹ ٹیوب بیبی جیسی جدید سائنس سے واقف تھا اور اس کا نمونہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک جج صاحب نے کہا تھا کہ مور کا آنسو پی کر مورنی حاملہ ہوتی ہے۔

23 مور مرے ملے

اب جبکہ مور کا ذکر آیا ہے تو آپ کو بتاتے چلیں کہ راجستھان کے ایک کسان کو موروں کو زہر دینے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بیکانیر کے سیرونا گاؤں میں ایک کھیت میں 23 مور مردہ پائے گئے۔ کسان نے اپنی فصل کو بچانے کے لیے مبینہ طور پر اس پر زہر کا چھڑکاؤ کیا تھا جس سے تقریباً دو درجن موروں کی موت ہو گئی۔
پولیس اور محکمۂ جنگلات کے حکام کے مطابق دینیش سنگھ چمار نامی کسان نے اپنے کھیت میں سبزی کے بیج بوئے تھے اور انھوں نے چڑیوں اور مور کے ان بیجوں کو کھانے کے خدشے کے پیش نظر زہر آلود دانے بھی کھیت میں ڈال دیے تھے۔
انڈیا میں مور کو عام طور پر قومی پرندہ کہا جاتا ہے اور اس کا شکار غیرقانونی بھی ہے۔

 کسان نے اپنی فصل کو بچانے کے لیے مبینہ طور پر زہر کا چھڑکاؤ کیا جس سے دو درجن مور ہلاک ہو گئے۔ فوٹو اے ایف پی

ٹوپی اور حجاب میں کیرل سروس

انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کی خلاف مظاہرے جاری ہیں اور لوگوں نے اس کی مخالفت کے نئے اور انوکھے طریقے اپنائے ہیں۔
حال ہی میں کرسمس کے موقعے پر جنوبی ریاست کیرالہ کے کوژنچیری میں قائم مارتھوما چرچ میں مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اور شہریت کے ترمیمی قانون کی بظاہر مخالفت میں کیرل سروس کے دوران مسیحی برادری کے بچے اور بچیوں نے ٹوپی اور حجاب کا استعمال کیا۔
جی جوائے نامی ایک صارف نے کیرل کی ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’یہ ہے انڈیا، ہمارے مذاہب کے اتحاد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ برائے مہربانی دیکھیں کہ نوجوان بچے بچیاں کس طرح سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے کیرل سروس میں سامنے آئے۔‘
بڑے پیمانے پر ان بچوں کے اظہار یکجہتی کی تعریف ہو رہی ہے جبکہ بی جے پی اور ان کے ہمنوا اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

شیئر: