Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ملکۂ موسیقی‘ روشن آرا بیگم، جن کے استاد بڑے غلام علی خان بھی مداح تھے

فیض احمد فیض نے کہا کہ ’روشن آرا بیگم گانے کے لیے پیدا ہوئی تھیں مگر ہم نے انہیں بھینسیں نہلانے پر لگا دیا۔‘ (فائل فوٹو: یولِن میگزین)
برصغیر کی تاریخ میں روشن آرا بیگم کے نام سے دو خواتین نے اس خطے پر حکمرانی کی ہے۔ ایک تو طاقت ور مغل شہزادی روشن آرا بیگم تھیں جو شہنشاہ شاہجہاں اور ملکہ ممتاز محل کی تیسری اولاد تھیں۔ وہ شاعرہ تو تھیں مگر سیاسی رموز سے بھی واقفیت رکھتی تھیں۔
شہنشاہ شاہجہاں کی وفات کے بعد اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی تو شہزادی روشن آرا بیگم نے اپنے بھائی اورنگزیب کا ساتھ دیا اور یوں اس وقت کی سیاست میں ان کا نمایاں کردار تھا۔ ان کو پادشاہ بیگم کا خطاب ملا جو مغل سلطنت میں ملکہ کے مترادف تھے۔
یہ تاریخی حوالہ دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مغلیہ عہد کی پادشاہ بیگم یعنی شہزادی روشن آرا بیگم کے علاوہ بھی برصغیر میں روشن آرا بیگم کے نام کی ایک اور خاتون گزری ہیں جنہیں اُن کے فن کی وجہ سے ملکہ موسیقی کا خطاب ملا اور یہ خطاب خاندانی نسبت سے نہیں بلکہ عوام اور ان کے چاہنے والوں کی جانب سے دیا گیا۔
روشن آرا بیگم کا ذکر ہوا ہے تو ان کے بچپن کے ماہ و سال نظرانداز کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ سُروں اور موسیقی سے ان کا رومان اسی دور میں قائم ہو گیا تھا جو مرتے دم تک برقرار رہا۔
روشن آرا بیگم کا اصل نام وحید النسا بیگم تھا۔ وہ کولکتہ میں اپنی خالہ عظمت بیگم نوری کے گھر پیدا ہوئیں، ان کی والدہ کا نام چندا بیگم تھا۔ بچپن میں شوخ اور شرارتی تھیں اور آسمان سر پر اٹھائے رکھتیں۔ ماں کی مار سے بچنے کے لیے صحن میں موجود ایک درخت کے گرد اس وقت تک چکر لگاتی رہتیں جب تک والدہ شکست تسلیم نہ کر لیتیں۔ وہ بلیوں سمیت پالتو جانوروں کی شوقین تھیں اور اسی وجہ سے ان کی عرفیت لفظ ’میاؤں‘ سے بگڑ کر ’مومو‘ پڑ گئی۔
ان کی درست تاریخِ پیدائش کے بارے میں اس کے سوا کچھ معلوم نہیں کہ ان کی خالہ عظمت اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ وہ 12 وفات (ربیع الاول) کے مہینے میں 1915 یا 1916 میں پیدا ہوئیں (کچھ روایتوں میں سنہ 1917 کا ذکر بھی ملتا ہے)۔
سوال اب یہ ہے کہ وحید النسا کا نام جہاں آرا کیوں پڑا؟ معروف مصنف اور کالم نگار وجاحت مسعود اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ’وحید النسا کے گھر میں وارثی سلسلے کے ایک بزرگ حافظ پیاری صاحب کا آنا ہوا۔ تصوف کے شناور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایک شاخِ نبات سے افلاطونی عشق کر کے شماتتِ ہمسایہ مول لی تھی اور مرزا پیاری صاحب کہلاتے تھے۔ وجد میں ہوتے تو نعرہ بلند کرتے ’مزہ ہے پیاری کا۔‘
حافظ پیاری نے آٹھ برس کی وحید النسا سے قرآن حکیم کی تلاوت سنی تو نہال ہو کر کہا، تیرا نام وحید النسا نہیں تو روشن جہاں ہے۔ وحید النسا روشن جہاں ہو گئیں۔‘
سنہ 1925 میں روشن آرا محض آٹھ نو برس کی تھیں تو خاندان کلکتہ (موجودہ کولکتہ) سے پٹنہ منتقل ہو گیا۔ یہ اُس وقت فن و ثقافت کا مرکز تو نہیں تھا مگر گنگا کے گھاٹ ماضی کی نغمگی لیے ہوئے تھے۔ روشن آرا موسیقی کی جانب راغب ہو چکی تھیں۔ انہوں نے ریاض معمول بنا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز کسی سادھو نے ان کی تان سنی تو عبدالکریم خان سے فیض پانے کا مشورہ دیا۔
وجاحت مسعود لکھتے ہیں کہ ’16 برس کی روشن آرا حضرت خواجہ شمس الدین کی درگاہ پر جا پہنچی۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد عبدالکریم خان نے روشن آرا پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا۔ روشن آرا پانچ برس تک سنگیت کے ساگر سے موتی چنتی رہیں۔ سنہ 1937 میں استاد انتقال کر گئے مگر کیرانہ گھرانے کی میراث روشن آرا کے ہاتھ رہی۔ کلا کا فیض ماہ و سال کی حدود کا پابند نہیں ہوتا۔ خود کہا کرتی تھیں کہ استاد کے شاگرد ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے مگر جو کسی کو نہ مل سکا، وہ بھی روشن آرا کے حصے میں آیا۔‘
روشن آرا بیگم نے پی ٹی وی کے پروگرام ’ملاقات‘ میں موسیقار خلیل احمد اور ایم۔ اقبال کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُن دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ پیدائشی گلوکارہ تھیں اور جو بھی دُھن سنتیں، اُسے بالکل ویسے ہی گا لیتی تھیں۔ جب وہ نو برس کی تھیں تو انہوں نے اپنے پہلے اُستاد سارنگی نواز خان صاحب لڈن خان سے باقاعدہ تربیت لینا شروع کی۔ یہ سلسلہ تین سے چار برس تک جاری رہا۔ اس وقت وہ کولکتہ میں مقیم تھیں۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ریاض شروع کرنے میں انہیں کچھ مشکلات ضرور پیش آئیں، لیکن اس قدر نہیں جن کا سامنا ایک نوآموز گلوکارہ کو کرنا پڑتا ہے۔ پھر خان صاحب بہادر خان، جو لڈن خان کے دوست تھے، نے ایک بار ذکر کیا کہ بمبئی میں خان صاحب عبدالکریم خان جب گاتے ہیں تو سامعین کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ اُنہوں نے استاد صاحب سے موسیقی سیکھنے کی ضد پکڑ لی تو ان کی یہ فرمائش بھی مان لی گئی، اور والدہ انہیں بمبئی میں موجود خالہ کے گھر لے گئیں تاکہ وہ عبدالکریم خان سے اکتساب حاصل کر سکیں۔‘
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بمبئی میں ایک ایسے فلیٹ میں رہائش رکھی جو ان کے ذوق کے مطابق تھا۔ وہ جب ریاض کیا کرتیں تو پڑوسی سب کام کاج چھوڑ کر ان کی جانب متوجہ ہو جاتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پڑوس کے فلیٹوں کے کرایے صرف اس وجہ سے بڑھ گئے کہ وہاں روشن آرا بیگم کی رہائش تھی۔
وہ جب گاتی تھیں تو سامعین کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ وقت کیسے گزر گیا کیوںکہ ان کی گائیکی میں سحر ہی ایسا تھا۔ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں مگر فنِ موسیقی میں ان کی خالہ کی دلچسپی تھی جو باقاعدہ اُستادوں سے تربیت لیتی رہی تھیں۔ روشن آرا بیگم ان کو ریاضت کرتے دیکھ کر ہی موسیقی کی جانب آئیں۔
روشن آرا کے والد عبدالحلیم کو موسیقی میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ پیشے کے اعتبار سے ترکھان تھے تو انہوں نے ابتدا میں روشن آرا بیگم کے گائیکی کو بطور پیشہ اختیار کرنے کی شدید مخالفت کی مگر اپنی بیوی اور بیٹی کی ضد کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔

روشن آرا بیگم کا اصل نام وحید النسا بیگم تھا۔ (فائل فوٹو: یوٹیوب)

بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ روشن آرا بیگم نے فلموں میں بھی کام کیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اُس زمانے میں فلموں میں پسِ پردہ گائیکی کا کوئی رواج نہیں تھا۔ ہیرو اور ہیروئن کو خود گانا بھی آنا چاہیے تھا کیوںکہ فلمیں زیادہ تر موسیقی پر مبنی ہوتی تھیں۔ روشن آرا بیگم نے فلم ’نورِ اسلام‘ میں ہیروئن کے طور پر کام کیا جبکہ ہیرو رام آنند تھے۔ اسی فلم کے لیے ان کا نام روشن جہاں سے تبدیل کر کے روشن آرا رکھا گیا۔ انہوں نے اُس دور میں تین چار فلموں میں کام کیا۔
انہوں نے بطور گلوکارہ اپنے فنی سفر کا باقاعدہ آغاز بمبئی (موجودہ ممبئی) سے کیا جہاں ان کے گیت ریڈیو پر نشر ہوا ہوتے تھے۔ سنہ 1936 میں انہیں معروف فلم ساز سہراب مودی کی تاریخی فلم ’پکار‘ میں پلے بیک گلوکارہ کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں انہوں نے موسیقار فیروز نظامی کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر فلموں ’جگنو‘ اور ’قسمت‘ کے لیے گیت گائے۔ یہ وہ فیروز نظامی ہی ہیں جنہوں نے محمد رفیع کو متعارف کروایا۔ معروف کرکٹر نذر محمد اور مصنف سراج نظامی ان کے بھائی تھے۔
اگرچہ روشن آرا کا گلوکارہ کے طور پر کیریئر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا مگر عبدالکریم خان نے ان کو ہدایت کی کہ وہ فلموں کے لیے مزید کام کرنا چھوڑ دیں اور اپنی پوری توجہ کلاسیکی موسیقی پر مرکوز کریں۔
روشن آرا بیگم نے راگوں کے اثر کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ ’ایک اچھی پرفارمنس سامعین پر واقعی مطلوبہ اثر چھوڑتی ہے۔‘
انہوں نے حیدرآباد دکن کا ایک واقعہ یاد کیا جہاں لوگ ان کی گائیکی سن کر رو پڑے تھے۔ ان کے مطابق صرف راگوں کی بندش ہی نہیں بلکہ گانے والے کی آواز بھی ایسا غیرمعمولی اثر پیدا کرتی ہے۔
تاہم روشن آرا بیگم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’کبھی کبھی جس کیفیت کا اثر پیدا کرنا مقصود ہو جیسے کہ خوشی تو یہ ہر راگ سے پوری طرح منتقل نہیں ہو پاتی۔ مثال کے طور پر راگ بسنت سے خوشی والا یہ اثر ہمیشہ حاصل نہیں ہوتا، مگر راگ بہار سے یہی کیفیت بخوبی پیدا ہو جاتی ہے۔‘

روشن آرا بیگم کے سسرال والوں کو ان کا موسیقی کا شوق قبول نہیں تھا۔ (فائل فوٹو: یولِن میگزین)

روشن آرا بیگم ذاتی طور پر راگ بیراگی گانا پسند کرتی تھیں، جبکہ راگ سونی میں ان کو گانے میں کبھی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ یوں کہہ لیجیے کہ یہ محض ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ تھا۔
وجاحت مسعود ان کی کلاسیکی موسیقی میں مہارت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’وہ خود بھی موسیقی کی آگ میں جلتیں اور دوسروں کے خرمن ہوش کو بھی جلاتی تھیں۔ راگ کی ہر منزل پر ان کے چہرے کے نقوش کھلتے چلے جاتے تھے۔ وہی چہرہ جو پہلے سانولا اور سادہ لگتا۔ آہستہ آہستہ روشن مرکز بن جاتا تھا۔ گاتے وقت وہ ایک طرف سارنگی نواز کی طرف دیکھتی اور دوسری طرف سر کی جنبش سے طبلے والے کا حوصلہ بڑھاتی اور یوں تینوں مل کر سنگیت کا مرکز قائم کر لیتے۔‘
’روشن آرا گاتے وقت سازوں کا ہجوم پسند نہیں کرتی تھیں۔ وہ سارنگی، باجے اور سرمنڈل کی بجائے دو تان پوروں کو کافی سمجھتی تھیں۔‘
روشن آرا بیگم نے ان دنوں دہلی ریڈیو کے علاوہ لاہور ریڈیو پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان دنوں ہی تقسیم کے ہنگام سے کچھ برس قبل سنہ 1944 میں روشن آرا بیگم کو شادی کی پیشکش موصول ہوئی جو ان کے ایک مداح اور بمبئی پولیس میں ایک سینیئر پنجابی افسر چوہدری احمد خان نے کی۔
روشن آرا بیگم نے اپنے استاد عبدالكريم سے مشورہ کیا اور ایک شرط پر شادی کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی کہ وہ موسیقی کو ترک نہیں کریں گی۔ شادی کے ابتدائی برسوں میں تو دونوں میں ذہنی ہم آہنگی برقرار رہی۔
روشن آرا بیگم نے ایک انٹرویو میں یہ ذکر کیا تھا کہ ’وہ کبھی اگر موسیقی کی ریاضت نہ کر پاتیں، تو ان کے شوہر انہیں اس کی ترغیب دیتے۔ قیامِ پاکستان کے وقت، انہیں اپنی خالہ عظمت بیگم نوری کے آپریشن کے لیے کلکتہ جانا پڑا۔ آٹھ ماہ بعد، روشن آرا بیگم اور ان کے شوہر سنہ 1948 میں پاکستان آ گئے اور گجرات اور جہلم کے درمیان ایک چھوٹے سے قصبے لالہ موسیٰ میں بس گئے جہاں ان کے شوہر کا آبائی گھر تھا۔‘

روشن آرا بیگم کے موسیقی سے اس وقفے کے بعد ان کی پہلی پرفارمنس ایک موسیقی کانفرنس میں ہوئی۔ (فائل فوٹو: ایکس)

مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب روشن آرا بیگم کی گائیکی کرنے پر پابندی لگا دی گئی کیوںکہ ان کے سسرال والوں کو ان کا موسیقی کا شوق قبول نہیں تھا۔ انہوں نے ڈیڑھ برس تک موسیقی سے دوری اختیار کیے رکھی تاہم ان کے شائقین کے دباؤ، اور ریڈیو پاکستان کی جانب سے بارہا گائیکی کی پیش کش کیے جانے پر بالآخر چوہدری صاحب روشن آرا بیگم کو دوبارہ گانے کی اجازت دینے پر راضی ہو ہی گئے۔
وجاحت مسعود لکھتے ہیں کہ ’اس رشتے کی ایک قیمت یہ تھی کہ ملکہ موسیقی تقسیم کے بعد دلی کی روشنیاں چھوڑ کر لالہ موسی کے غبار میں آ بیٹھیں۔ 30 برس کی عمر تھی۔ قدردان برصغیر کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ مگر شاہنامہ اسلام کی تنگنائے میں دادرا، خیال کا گذر کہاں سے ہوتا۔‘
’روشن آرا نے اہل فن کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ ریڈیو پاکستان پہ تو دربان بھی آنکھیں دکھاتے تھے۔ گوشہ نشین ہو گئیں۔ حیاتِ مختصر کی دوپہر خود اختیار کردہ گمنامی کی نذر ہو گئی۔ عامی خلق تو کہیں کی بھی ہو، فنکار اور کاریگر میں فرق نہیں کرتی۔ مگر پاکستان میں روشن آرا کو کن رس بھی نصیب نہیں تھے۔ غلط جگہ پہ داد ملتی تو آنکھ کا گوشہ ذرا نیہوڑا لیتیں۔ فنکار اور کیا کرے۔ کسی کو تڑی پار تو نہیں کر سکتا۔‘
ان کے موسیقی سے اس وقفے کے بعد ان کی پہلی پرفارمنس ایک موسیقی کانفرنس میں ہوئی، جس میں استاد بڑے غلام علی خان نے بھی پرفارم کیا۔ وہ اس وقت فی الحال پاکستان میں ہی موجود تھے۔ اپنی پرفارمنسز کے دوران روشن آرا بیگم اپنے گھر میں ریاضت کیا کرتیں جس کے لیے انہوں نے حل یہ نکالا کہ تانپورہ اور طبلہ (استاد شوکت حسین کے ساتھ) کو ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کر کے اپنی ریاضت کے لیے استعمال کیا، یہ سہولت ریڈیو پاکستان کے دوستوں کی بدولت ممکن ہوئی۔
انہوں نے گھر کے تہہ خانے اور اپنے بیڈروم میں ریاضت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جس کا ذکر انہوں نے پی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھی کیا تھا۔
روشن آرا بیگم کی اپنے فن پر مہارت کا اندازہ لگانا ہو تو استاد بڑے غلام علی خان کی گواہی سے بڑھ کر اور کیا سند درکار ہو گی۔
عظیم کلاسیکی گائیک استاد غلام حیدر خان نے ایک بار ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’روشن آرا بیگم کا درحقیقت اگر کسی ہم عصر گلوکار سے موازنہ کرنا ممکن تھا تو وہ استاد بڑے غلام علی خان ہی تھے۔ مجھے ایک موقع یاد ہے جب ان دونوں عظیم گلوکاروں نے ایک ہی سٹیج پر پرفارمنس دی۔‘
’یہ لاہور ریڈیو کے 1950 کی دہائی کے سالانہ جشن بہاراں کا پروگرام تھا، جو سات دنوں تک جاری رہا۔ پہلے دن استاد بڑے غلام علی خان نے اپنے پسندیدہ راگ مالکونس کو بھرپور جوش اور قوت کے ساتھ پیش کیا، اور ان کے بعد روشن آرا نے اپنے پسندیدہ راگ شنکرا کو ولولے اور مہارت کے ساتھ گایا۔ دونوں پرفارمنسز نے سامعین کو مسحور کر دیا چناںچہ یہ فیصلہ کرنا ناممکن تھا کہ کس کی گائیکی بہتر تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگلی شام روشن آرا کو پہلے گانے کا موقع ملا، اور انہوں نے راگ بسنت چنا۔ مارچ کا مہینہ تھا اور شہرِ پرکمال بہار کی خوشبوؤں اور رنگوں سے معطر تھا۔ روشن آرا کی شاداب اور طنزیہ خوشی والے راگ کی پیشکش سے ایسا محسوس ہوا جیسے فطرت کے مختلف مظاہر رقص کر رہے ہوں، اور یہ اس قدر دلکش تھی کہ سامعین نے ان پر بے اختیار پھول نچھاوڑ کیے۔‘
’روشن آرا کے بعد بڑے غلام علی خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اور باوجود اس کے کہ انہوں نے راگ کافی کانڑا کو نہایت مہارت اور نزاکت کے ساتھ پیش کرنے کی پوری کوشش کی، وہ روشن آرا کے جادوی اثر میں داخل بھی نہ ہو سکے، اور یہ تو دور کی بات ہے کہ وہ اس طلسم کو توڑ پاتے۔ عظیم استاد نے بالآخر بڑے دل کے ساتھ سامعین کے سامنے روشن آرا بیگم کی دل کھول کر تعریف کی اور دعا دی جس پر روشن آرا عاجزی اور شائستگی کے ساتھ ان کے قدموں میں جھک گئیں۔‘
روشن آرا بیگم نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل پی ٹی وی پر بھی گائیکی کی اور ایک بار پھر یہ دکھا دیا کہ وہ واقعتاً موسیقی کی ملکہ تھیں۔
وجاحت مسعود نے کیا خوب لفظوں میں سُروں کی دیوی کو ٹریبیوٹ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’پھر ٹیلی ویژن آیا اور روشن آرا کی سلامت رو تان کی بازیافت ہوئی۔ گو تان میں وہ بجلی کی سی لپک اب باقی نہیں تھی اور زیاں کا ایک احساس بادل کے ٹکڑے کی طرح ساتھ ساتھ چلتا تھا مگر ریاض سلامت تھا اور سُر قائم تھا۔ اندر کی روشنی کا رچاؤ بھی بڑھ چکا تھا۔ سُر کے آجو باجو چھوٹی چھوٹی مرکیوں سے نقش و نگار کا تانا بانا بن دیتی تھیں، کہیں بیچ میں سر گم کا ٹکڑا کہتیں تو چہرے کے نقوش کھلکھلا اٹھتے۔‘

استاد بڑے غلام علی خان نے بڑے دل کے ساتھ سامعین کے سامنے روشن آرا بیگم کی دل کھول کر تعریف کی اور دعا دی۔ (فائل فوٹو: دربار فیسٹول)

انہوں نے مزید لکھا کہ ’ڈیوڑھے بدن کی سانولی اور گرہست صورت سرسوتی کا روپ دھار لیتی۔ روشن آرا کی گائیکی میں بِرہا کی پکار نہیں تھی، شانت سہاگن کا دھیرج تھا۔ یہ روشن آرا بیگم تھیں۔ ایک زندہ کلاسیک۔ اور والٹیئر کہتا ہے، کلاسیک کا نام لیا جاتا ہے۔ اِسے جانا کم کم جاتا ہے۔‘
روشن آرا بیگم کو سنہ 1960 میں صدر ایوب خان کی طرف سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور وہ پہلی خاتون گلوکارہ تھیں جنہیں ستارہ امتیاز دیا گیا جو اُن کی فنی خدمات کا ایک ادنیٰ سا اعتراف ہے۔
روشن آرا بیگم آج ہی کے روز 6 دسمبر 1982 کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث وفات پا گئیں۔ ان کی یاد میں لاہور کے پانچ ستارہ ہوٹل میں تعزیتی ریفرنس رکھا گیا تو فیض احمد فیض نے کہا کہ ’روشن آرا بیگم گانے کے لیے پیدا ہوئی تھیں مگر ہم نے انہیں بھینسیں نہلانے پر لگا دیا۔‘
ان چند الفاظ سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ استاد بڑے غلام علی خان کیوں انڈیا ہجرت کر گئے اور ساحر لدھیانوی یا قرۃالعین حیدر نے کیوں انڈیا واپسی کی راہ لی۔
روشن آرا بیگم کا انتقال ایک عہد کا اختتام تھا کیوںکہ ان کی وفات کے بعد پاکستان میں کیرانہ طرزِ گائیکی حقیقت میں یتیم ہو گئی، حالاںکہ انڈیا میں اب بھی اس طرزِ موسیقی کے کچھ گھرانے موجود ہیں مگر ملکۂ موسیقی صرف روشن آرا بیگم ہی ہیں جن کی جگہ کوئی دوسرا پُر نہیں کر سکتا کہ یہ وہ فنکارہ ہیں جن کی تعظیم استاد بڑے غلام علی خان نے بھی کی۔

 

شیئر: