Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شرمیلا ٹیگور: بنگالی ساحرہ سے بالی وڈ کی دیوی تک، جنہوں نے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرا

شرمیلا ٹیگور کی ایک ایسے ماحول میں پرورش ہوئی جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوا کرتا (فوٹو: اے ایف پی)
یہ کہانی بنگال کی ایک ایسی پری چہرہ اداکارہ کی ہے جو آنکھوں سے مکالمے ادا کیا کرتی تھی۔ آغاز تو بنگالی فلموں سے کیا مگر جلد ہی بالی وڈ کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ قرار پائی جو سنیما میں دیوتا کی حیثیت رکھنے والے ہدایت کار ستیہ جیت رے کی دریافت تھیں۔
بات ہو رہی ہے اداکارہ شرمیلا ٹیگور کی جو آج ہی کے روز 8 دسمبر 1944 کو بھارتی ریاست اُترپردیش کے شہر کانپور میں بسنے والے ایک معروف جاگیردار ٹیگور خاندان میں پیدا ہوئیں۔
نوبیل انعام مصنف رابندر ناتھ ٹیگور، بالی وڈ کی فرسٹ لیڈی کا خطاب پانے والی دیویکا رانی اور عظیم مصور ابانندرا ناتھ ٹیگور بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے تو یوں شرمیلا ٹیگور کی ایک ایسے ماحول میں پرورش ہوئی جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوا کرتا۔
یہ شرمیلا کی لڑکپن کی عمر تھی جب انہوں نے پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا جس کے بعد یہ سفر چھ دہائیوں سے جاری ہے تو آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر اُن کے ابتدائی سفر کے بارے میں ہو جائے۔ ستیہ جیت رے نے اس بارے میں اپنی خودنوشت سوانح عمری میں تفصیل سے ان دنوں کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ہم نے اخبارات میں ایک اشتہار دیا تھا کہ 15 سے 17 سال کی لڑکیاں اپنی تصاویر بھیجیں تاکہ ان کا آپو کی بیوی کے کردار کے لیے آڈیشن لیا جا سکے۔ ایک ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں، لیکن ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں تھی جسے انٹرویو کے لیے بلایا جا سکتا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ہم ایک بار پھر مایوس ہونے ہی لگے تھے کہ اسی دوران ایک لڑکی شرمیلا کے بارے میں خبر ملی، جو چلڈرنز لِٹل تھیٹر کے ایک ڈانس پروگرام میں نظر آئی تھی۔ وہ شاعر ٹیگور کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ بہت زیادہ باصلاحیت ہے۔ ہم نے اس کے والدین سے رابطہ کیا اور استفسار کیا کہ کیا ہم ان کی بیٹی کو دیکھ سکتے ہیں تاکہ ’آپو‘ کے سلسلے کی اگلی قسط میں ایک اہم کردار کے لیے اس کا آڈیشن لیا جا سکے۔‘
رے اس وقت تک عالمی شہرت حاصل کر چکے تھے اور اَپو سیریز کی دو فلمیں ریلیز ہو کر دنیا بھر کے فلم بینوں سے داد وصول کر چکی تھیں تو اس پیشکش پر شرمیلا کے والدین نے کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی صاحب زادی کو رے صاحب کے جنوبی کلکتہ (کولکتہ) میں اُن کے فلیٹ پر لے کر گئے۔

رے نے فلم کی شوٹنگ کے دوران شرمیلا ٹیگور کی نہایت احتیاط سے رہنمائی کی (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)

شرمیلا ٹیگور نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں نے اُس روز فراک پہن رکھی تھی، حالانکہ میں ساڑھی پہننے کی بھی عادی تھی، خاص طور پر رسمی مواقع پر۔ وہ (رے صاحب) سرو قد تھے اور ان کی شخصیت بھی انتہائی اثر انگیز تھی، لیکن میں بالکل خوف زدہ نہیں ہوئی۔ انہوں نے میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا۔ مونکودی (بیجویا رے، ستیہ جیت رے کی اہلیہ) بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ انہوں نے ہی مجھے ساڑھی پہنائی۔‘ساڑھی میں شرمیلا کی شخصیت یکسر تبدیل ہو گئی۔ رے اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ’اس نے ایک چھوٹی سی زرد رنگ کی فراک پہن رکھی تھی، جس سے وہ بالکل ابتدائی عمر کی لڑکی لگ رہی تھی اور حقیقت میں وہ تھی بھی۔ اس حلیے میں اسے آپو کی دلہن کے طور پر سوچنا مشکل تھا۔‘
’اس کے کندھوں تک بال بھی اپرنا کے کردار کے لیے مناسب نہیں تھے لیکن اس کے خدوخال کردار کے لیے موزوں تھے۔ میری بیوی نے اپنی بےرغبتی صاف ظاہر کر دی، مگر لڑکی کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اسے فوراً رَد کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ میں نے بیوی کو بلایا اور کہا کہ وہ لڑکی کو سادہ دھاری دار کھدر کی ساڑھی پہنائے جو دیہات کی لڑکیاں عام طور پر پہنتی ہیں، اور اس کے بالوں کا جوڑا بنا کر اُسے واپس ڈرائنگ روم میں لے آئے، جہاں میں اُس کے والدین کے ساتھ اُس کا منتظر تھا۔‘
رے لکھتے ہیں کہ ’جادو چل گیا… وہ سر سے پاؤں تک اپرنا بن چکی تھی۔ خود اس کے رویّے میں بھی اس تبدیلی کے بعد ایک نیا رنگ آ گیا تھا۔ وہ اُس وقت صرف 13 برس کی تھی، مگر اب چار سال بڑی لگ رہی تھی۔‘
شرمیلا کا سکرین ٹیسٹ سٹوڈیو میں ہوا۔ شرمیلا نے ان دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مانک دا نے مجھے کہا کہ اِدھر دیکھو، اُدھر دیکھو۔ میں ایک فرمانبردار طالبہ کی طرح اُن کی ہدایات پر عمل کرتی گئی۔ یہ خاموش سکرین ٹیسٹ تھا۔ انہوں نے مجھے کوئی مکالمہ بولنے کے لیے نہیں کہا۔‘

شرمیلا نے اپرنا کے کردار میں کچھ ایسا رنگ بھرا کہ اپنی پہلی فلم کے ساتھ ہی وہ بنگال کی معروف ترین اداکارہ بن گئیں (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

یوں شرمیلا کو ’اپور سنسار‘ میں کام مل گیا۔ رے نے فلم کی شوٹنگ کے دوران شرمیلا ٹیگور کی نہایت احتیاط سے رہنمائی کی۔ انہوں نے اپنی اس نئی دریافت کو آغاز میں ہی خبردار کیا تھا کہ وہ ’سب سے مشکل سین سے آغاز کرنے والی ہے‘۔ شرمیلا نے سنا، مگر خاموش رہیں۔
یہ منظر کچھ یوں تھا کہ ایک نئی نویلی دلہن اپرنا اپنے گاؤں سے اپنے والد کا گھر چھوڑ کر شہر میں اپنے شوہر کے گھر پہنچتی ہے۔ تھکی ہوئی، اجنبی ماحول اور تنہائی سے نڈھال، وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی ہے، جب کہ آپو تانگے کا کرایہ ادا کرنے گیا ہوتا ہے۔
رے لکھتے ہیں کہ ’کوئی ریہرسل نہیں ہوئی۔ میں نے دور سے ہدایات دیتے ہوئے زور دیا کہ شرمیلا پوری دل جمعی سے سسکیاں لو، جیسے وہ خود پر سے قابو کھو چکی ہو۔ کچھ دیر بعد، جب شرمیلا سے آہستہ آہستہ خود کو سنبھالنے کے لیے کہا گیا، تو اس نے یہ کام بڑی پختگی کے ساتھ کیا۔‘
شرمیلا نے اپرنا کے کردار میں کچھ ایسا رنگ بھرا کہ اپنی پہلی فلم کے ساتھ ہی وہ بنگال کی معروف ترین اداکارہ بن گئیں مگر اس کی اُن کو ایک بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بتایا گیا کہ میرے سکول کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ میں نے اگر فلموں میں کام کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مجھے سکول چھوڑنا پڑے گا۔ میرے بنگالی میڈیم سکول کی پرنسپل کو لگتا تھا کہ اُن کے سکول کے طالب علموں میں ایک فلم سٹار کا ہونا کسی سکینڈل سے کم نہیں ہوگا۔‘

شرمیلا واحد اداکارہ ہیں جنہیں رے کی پانچ فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا (فوٹو: فلم فیئر)

شرمیلا کے والد نے سکول کی پرنسپل کو اس بات پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ رے کی فلم میں کام کرنا بدنامی نہیں، اعزاز ہے۔ مگر اُن کی کوئی بات اثر نہ کر سکی۔
اُن کے والد نے بالآخر تنگ آ کر اور دل برداشتہ ہو کر شرمیلا کو ایک دوسرے انگریزی میڈیم سکول میں داخل کروا دیا مگر ان کی اداکاری کا سلسلہ جاری رہا۔
’اپور سنسار‘ کی شوٹنگ ختم ہوتے ہی شرمیلا کو تقریباً فوراً ہی رے کی ایک اور فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ فیصلہ کیا گیا کہ وہ اپنی گرمیوں کی تعطیلات میں کلکتہ جائیں گی تاکہ شوٹنگ کی جا سکے۔ اُس وقت وہ کچھ بڑی بھی ہو چکی تھیں۔ یہ رے صاحب کی یادگار فلم ‘دیوی‘ تھی جس کا سکرپٹ پڑھ کر انہیں محسوس ہوا کہ انہیں ایک چیلنجنگ کردار پیش کیا گیا ہے اور حقیقت کچھ مختلف بھی نہیں تھی۔
شرمیلا واحد اداکارہ ہیں جنہیں رے کی پانچ فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ حالانکہ سال 1963 میں ممبئی (اس وقت بمبئی) چلی گئیں، مگر انہوں نے بنگالی فلموں میں کام کرنے کا سلسلہ نہیں چھوڑا۔
شرمیلا کہتی ہیں کہ ’میں ممبئی اس لیے گئی کیوں کہ میں معاشی طور پر خود مختار ہونا چاہتی تھی۔ کلکتہ میں اداکاروں کا معاوضہ بہت کم تھا۔‘

شرمیلا کی راجیش کھنہ کے ساتھ جوڑی کو بہت پسند کیا گیا اور دونوں ایک ساتھ کئی یادگار فلموں میں دکھائی دیے (فوٹو: فلم فیئر)

شرمیلا کی پہلی بالی وڈ فلم معروف ہدایت کار شکتی سامنت کی سال 1964 میں ریلیز ہوئی ’کشمیر کی کلی‘ تھی جس میں انہوں نے شمّی کپور کے ساتھ ایک کشمیری لڑکی کا کردار ادا کیا۔ یوں ایک کامیاب جوڑی وجود میں آئی جس نے ازاں بعد کئی سپرہٹ فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔
یہ شکتی سامنت ہی تھے جنہوں نے سال 1967 میں ریلیز ہوئی فلم ’این ایوننگ ان پیرس‘ میں شرمیلا کو بکنی میں شوٹ کیا۔ یہ فلم ریلیز ہوئی تو شرمیلا راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔
اُن کی راجیش کھنہ کے ساتھ جوڑی کو بہت پسند کیا گیا اور دونوں ایک ساتھ کئی یادگار فلموں میں دکھائی دیے جن میں ’آرادھنا‘، ’سفر‘، ’امر پرم‘ اور ’داغ‘ شامل ہیں۔ شرمیلا ’آرادھنا‘ کی شوٹنگ کے دوران امید سے تھیں مگر انہوں نے فلم مکمل کر کے ہی دم لیا۔
بنگال کی اس ساحرہ نے اپنی دو سب سے یادگار فلموں میں ہدایت کار گلزار کے ساتھ کام کیا جن میں ایک ’نمکین‘ اور دوسری ’موسم‘ ہے جس میں ان کی شاندار اداکاری پر ان کو نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
شرمیلا نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں مختلف معاون کردار ادا کیے، مگر اب اُن کا دل واقعتاً فلموں میں نہیں لگتا تھا۔ انہوں نے اُس وقت اپنے تین بچوں (سیف، صبا اور سوہا) کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی۔
اخبار ’دی سنڈے گارجین‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ انہوں نے غیرمعمولی طور پر روایتی کرداروں کے ساتھ ساتھ گلیمرس کردار بھی ادا کیے۔ ڈمپل گرل نے ’اپور سنسار‘ میں آپو کی مظلوم بیوی اور ’امر پرم‘ میں پُشپا کے کردار سے لاکھوں دلوں کو چھو لیا۔ وہ ’این ایوننگ ان پیرس‘ میں کلب ڈانسر کے طور پر اور بکنی میں دکھائی دے سکتی تھیں، یا ’آرادھنا‘ کے گانے ’روپ تیرا مستانہ‘ کے بولڈ سین میں۔ وہ اپنے عروج کے زمانے میں ملک کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی خاتون اداکارہ تھیں۔‘

شرمیلا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی اداکاری کی جان ان کی آنکھیں اور آواز کا مدوجذر تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اخبار مزید لکھتا ہے کہ ’شرمیلا نے اپنا یہ انداز برقرار کھا۔ وہ ایک طرف حقیقت پسند بنگالی فلموں کا سنجیدہ اور دوسری طرف بالی وُڈ کی فلموں کا گلیمرس چہرہ بن کر اُبھریں جس میں ناچ گانا ہوتا تھا اور پوری توجہ باکس آفس پر کامیاب ہونے پر ہوتی تھی حتیٰ کہ ان کی ہندی فلمیں، جن میں سے بعض بنگالی ہدایت کاروں کی بنائی ہوئی تھیں، دلچسپ کہانیاں، شاندار اداکاری اور معاشرتی پیغام بھی فراہم کرتی تھیں۔‘
شرمیلا نے اپنے زمانے کے تمام بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی منوج کمار کے ساتھ فلم ’ساون کی گھٹا‘ سپرہٹ رہی جب کہ ان کی دیگر فلمیں جیسے ’دیور‘، ’انوپما‘ اور ’ستیاکام‘ سنجیدہ فلمیں تھیں جن میں مضبوط معاشرتی پیغام موجود تھا۔ دھرمیندر کے ساتھ ’چپکے چپکے‘ میں ان کا کردار ہلکا پھلکا مزاح لیے ہوئے تھا مگر یہ موجودہ عہد کی کامیڈی فلموں سے مختلف تھی۔
شرمیلا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی اداکاری کی جان ان کی آنکھیں اور آواز کا مدوجذر تھا۔ وہ کوئی لفظ ادا کیے بغیر اپنی آنکھوں کے ذریعے بات کرنے کے فن میں یکتا تھیں، جیسا کہ انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا اظہار ’انوپما‘ اور ’دیور‘ جیسی فلموں میں کیا۔
انہوں نے ’آرادھنا‘، ’امر پرم‘، ’داغ‘ اور ’گریہا پرویش‘ جیسی فلموں میں اپنی آواز کے مدو جذر کے ذریعے حقیقت پسندی کا رنگ بھرا۔ شرمیلا نے کسی کی نقل نہیں کی بلکہ ان کی اداکاری کا اسلوب حقیقت پسند بنگالی سینما کی روایات کا پرتو تھا۔
شرمیلا اگر ٹیگور خاندان کے ورثے کو آگے بڑھا رہی تھیں تو نواب منصور علی خان پٹوڈی ایک شاہی خاندان کے وارث تھے۔ ان دونوں کی پریم کہانی کسی دیومالائی داستان سے کم نہیں۔
شرمیلا ٹیگور نے ٹونکل کھنہ کے چیٹ شو ’دی آئیکونز‘ میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ اور ٹائیگر (منصور علی خان) ایک کرکٹ پارٹی میں ملے، جب منصور حال ہی میں انگلینڈ سے واپس لوٹے تھے۔‘

دونوں میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یہ اس وقت ختم ہوا جب منصور نے شرمیلا کو شادی کی پیشکش کی (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

شرمیلا نے انکشاف کیا کہ ’انہوں نے کلکتہ میں فون نمبرز کا تبادلہ کیا اور جب وہ دہلی میں تھیں تو منصور نے ڈبل سینچری بنائی۔ شرمیلا نے انہیں مبارک باد دینے کے لیے ان کے گھر فون کیا اور ایک مبارک بادی پیغام چھوڑ دیا۔
انہوں نے انٹرویو میں مزید بتایا تھا کہ ’منصور علی خان پٹودی نے انہیں کافی پینے کے لیے مدعو کیا، اور یہ لمحہ واقعی ناقابلِ فراموش تھا۔‘
دونوں میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یہ اس وقت ختم ہوا جب منصور نے شرمیلا کو شادی کی پیشکش کی تو شرمیلا نے مذاق میں ایک شرط رکھ دی کہ وہ اگر ’ہاں‘ سننا چاہتے ہیں تو اگلے میچ میں ایک اوور میں تین چھکے مارنے ہوں گے۔ منصور نے ابتدا میں ہنستے ہوئے یہ بات نظر انداز کر دی، مگر انہوں نے یہ چیلنج سنجیدگی سے لیا اور میدان میں بالکل ایسا ہی کیا۔
دونوں کی محبت بھری یہ شرارتیں شادی کے بعد بھی جاری رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شرمیلا اپنے شوہر سے تھوڑا جلدی جاگتی تھیں تاکہ ہلکا سا میک اپ کر لیں اور منصور انہیں شرمیلا ٹیگور کے روپ میں ہی دیکھیں۔
ان دونوں کا شادی کے بندھن میں بندھنا آسان نہیں تھا کیوں کہ شرمیلا ہندو اور منصور مسلمان خاندان سے تھے۔ ان کو یہ دھمکی بھی ملی کہ اگر یہ شادی ہوئی تو ’گولیاں چلیں گی۔‘
شرمیلا نے ٹونکل کھنہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ اور منصور شادی کے لیے فورٹ ولیم جانے والے تھے، کیوں کہ سب کو دھمکیوں کی وجہ سے تشویش تھی۔ لیکن آخری لمحات میں فورٹ ولیم نے انکار کر دیا کیوں کہ کچھ باراتی فوج سے منسلک تھے۔ انہوں نے چناںچہ اپنے ایک سفارت کار دوست کے بنگلے میں شادی کا انتظام کیا۔‘

شرمیلا کے بڑے صاحب زادے سیف علی خان اور صاحب زادی سوہا علی خان بالی وڈ میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان دونوں نے ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزاری۔ نواب منصور علی خان پٹوڈی سال 2011 میں چل بسے مگر دونوں نے اپنا اپنا وعدہ پورا کیا اور جیون بھر ساتھ نبھایا۔
شرمیلا کے بڑے صاحب زادے سیف علی خان اور صاحب زادی سوہا علی خان بالی وڈ میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں جب کہ صبا علی خان جیولری ڈیزائنر ہیں۔
شرمیلا ٹیگور بہترین اداکارہ اور معاون اداکارہ پر دو نیشنل ایوارڈ، فلم ’آرادھنا‘ پر بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ اور فلم فیئر اور سکرین ایوارڈز کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔
سال 2013 میں انڈیا کی حکومت نے اداکارہ کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا مگر ان کے لیے سب سے اہم اعزاز یہ ہے کہ ان کے کام کو سراہا گیا اور وہ اس عمر میں بھی اداکاری کر رہی ہیں اور گزشتہ برس ہی ان کی ویب فلم ’گلِ مہر‘ ریلیز ہوئی جسے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
شرمیلا نے بطور اداکارہ خود کو کسی مخصوص رنگ میں نہیں ڈھالا بلکہ ہر کردار میں ڈھل گئیں اور ایک ایسا تخلیقی ورثہ چھوڑا جسے نظرانداز کرنا کسی طور پر ممکن نہیں۔

 

شیئر: