Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسٹ انڈیا کمپنی کی کروڑوں افراد کو غلام بنانے کی تاریخ

1833 میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی سے حق تجارت چھین لیا گیا۔ فوٹو: ویکیپیڈیا
آج سے کوئی چار سو بیس سال قبل آج کی ہی تاریخ یعنی 31 دسمبر سنہ 1600 کو برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے لندن کے دو سو سے زائد بااثر افراد اور تاجروں کی ایک نئی کمپنی کو چارٹر جاری کیا جس کے تحت اس کمپنی کو مشرقی ایشا میں تجارت پر اجارہ داری عنایت کی گئی۔
یہ ایک عام سا سرکاری فرمان تھا اور امکان یہی تھا کہ کمپنی مصالحہ جات کی بین الاقوامی منافع بخش تجارت میں شریک ہو جائے گی لیکن شاید اس دن نہ ملکہ کو نہ ہی کمپنی کے سرکردہ افراد کو اندازہ تھا کہ لندن کی ایک چھوٹی سی عمارت میں قائم یہ کمپنی صرف مصالحہ جات کی تجارت نہیں کرے گی بلکہ دنیا کی تاریخ کی سب سے طاقتور ملٹی نیشنل کمپنی بن کر دنیا کے سب سے امیر ملک اور تقریباً ایک چوتھائی آبادی پر براہ راست راج کرے گی۔
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ولیم ڈارلیمپل کی کتاب ’دی انارکی، دا ری لینٹ لس رائز آف ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے مطابق یہ تاریخ کی ایک منفرد مثال ہے جس میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک پرائیویٹ کمپنی نے اپنی زمینی فوج اور نیوی کی مدد سے 20 کروڑ لوگوں پر مشتمل ایک پوری قوم کو غلام بنا دیا تھا۔
ابتدا میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے قریب ڈیڑھ سو سال تک قدرے شرافت کے ساتھ تجارت کی۔
اس وقت مغلوں کی حکمرانی میں انڈیا دنیا کا امیر ترین ملک شمار ہوتا تھا اور ان دنوں کا انگلینڈ ملکہ الزبتھ کی فراست مندی اور حکمت کے باعث  قدرے ترقی کے باوجود  رقبے اور وسائل میں انڈیا کے سامنے ایسا ہی تھا جیسے آج کے امریکہ کے سامنے ایشیا کا کوئی چھوٹا سا ملک۔
انڈیا کی آبادی اس وقت انگلینڈ سے تقریباً 20 گنا زیادہ تھی۔ 

 1600 میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے لندن کے بااثر افراد پر مبنی ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر جاری کیا تھا۔ فوٹو: بریٹنیکا

انڈیا دنیا کا صنعتی مرکز تھا دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد انڈیا میں رہتا تھا اور تقریباً ایک چوتھائی مصنوعات یہاں تیار ہوتی تھیں جن میں کپڑے کی اشیا سر فہرست ہیں۔ دنیا بھر کا سونا اور چاندی انڈیا میں آتا اور یہاں کی اشیا دنیا بھر میں بکتی تھیں حتیٰ کہ سستی انڈین مصنوعات کی دستیابی کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں جیسے میکسیکو میں مقامی صنعت تک متاثر ہو رہی تھی۔
اس زمانے میں معاشی خوشحالی کے باعث اس وقت کا مغل شہنشاہ اکبر دنیا کا سب سے امیر انسان تھا جس کی آمدنی چند تخمینوں کے مطابق آج کے دور کے 10 ارب برٹش پاؤنڈز کے برابر تھی۔ 
دوسری طرف انگلینڈ قدرے غریب زرعی ملک تھا جو تقریباً ایک صدی تک مذہب جیسے موضوع پرخانہ جنگی کا شکار رہا تھا۔ انگلینڈ میں دنیا کی صرف تین فیصد مصنوعات تیار ہوتی تھیں۔
مذہبی خانہ جنگی کی وجہ سے یورپ میں انگلینڈ کسی حد تک تنہا ہو چکا تھا اسی تنہائی نے انگلینڈ کے باسیوں کو مجبور کیا کہ دنیا بھر میں کاروبار اور تجارت کے مواقع ڈھونڈیں۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ کی بڑی طاقتیں مشرق کے مصالحہ جات کی تجارت پر اجارہ داری کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریبان تھیں۔
یورپ اور دینا بھر میں ریفریجریشن وغیرہ کی عدم موجودگی میں گوشت اور دیگر کھانے بدبو چھوڑ دیتے تھے ایسے میں ان کھانوں کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے مشرق سے آنے والے مصالحہ جات کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ اپنی دولت کو مصالحوں کی موجودگی سے ماپتے تھے۔ 

ایسٹ اندیا ہاؤس لندن سے انڈیا کے معاملات چلائے جاتے تھے۔ فوٹو: ویکیپیڈیا

پرتگال اور سپین تقریباً ایک صدی سے اس تجارت میں اپنے پنجے گاڑ چکے تھے اور انگلینڈ کے تاجر پریشان تھے کہ وہ کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس دور میں برطانوی ملکہ کی مرضی سے انگلینڈ کے ’بحری تاجر‘ اسپین، اور پرتگال کے بحری جہازوں کو سمندروں میں موقع ملنے پر لوٹتے رہتے تھے تاہم انہیں بڑے پیمانے پر مصالحہ جات کی پرکشش تجارت میں حصہ لینا تھا۔ 
ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے مشرق سے مصالحہ جات کے حصول کے لیے لیونٹ کمپنی دو کوششیں کر چکی تھی مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ تاہم لندن کے سابق اور موجودہ میئر حضرات، شہر کے اکاونٹ افسران، تاجران، سابق فوجی افسران اور بحری قذاقوں کی طرف سے مل کر تشکیل دی جانے والی کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو چارٹر حاصل کیا اس میں انہیں مانگی گئی مراعات سے بھی زائد عطا کی گئیں جن میں 15 سال تک بلا شرکت غیرے تجارتی اجارہ داری اور پہلے چھ بحری سفروں پر ہر طرح کے ٹیکس اور ڈیوٹی کی رعایت شامل تھی۔
کمپنی کا پہلا سفر 13 فروری 1601 کو سر جیمز لین کاسٹر کی قیادت میں شروع ہوا جو ساؤتھ افریقہ میں موجود کیپ آف ہوپ سے ہوتا ہوا آج کے انڈونیشیا اور قریبی علاقوں میں پہنچا اور چھ جون 1603 کو جب چار جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ واپس لندن پہنچا تو وہ دارچینی، مرچ اور لونگ کے 900 ٹن سے زائد مقدار لیے ہوئے تھا جس میں بڑی مقدار وہ بھی تھی جو ایک پرتگالی جہاز سے لوٹی ہوئی تھی جبکہ باقی آج کے انڈونیشیا اور ملحقہ علاقوں سے خریدی گئی تھی۔ کمپنی کے 218 شئیر ہولڈروں کو تین سو گنا منافع ہوا تھا۔
اس دور میں یورپ کا نو آزاد ملک ہالینڈ مصالحہ جات کی تجارت پر اپنی معاشی مضبوطی کی وجہ سے چھا چکا تھا اس لیے انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ مصالحہ جات کو ان پر چھوڑ کرانڈیا سے کپڑے اور دیگر اشیا پر توجہ مرکوز کی جائے۔

تین سال کی مشکل سفارتکاری کے بعد سر تھامس ایسٹ انڈیا کمپنی کی سورت میں فیکٹری کھلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ فوٹو ویکیپیڈیا

چنانچہ اگست 1608 کو کیپٹن ولیم ہاکنز نے اپنا جہاز ’ہیکٹر‘ انڈیا کی بندرگاہ سورت (جو آجکل گجرات ریاست میں شامل ہے) پر لنگر انداز کیا اور انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی پہنچ گئی۔
کیپٹن ہاکنز کو انڈیا پہنچ کر اندازہ ہو گیا کہ عظیم مغل حکمرانوں کے اس ملک کو فتح کرنے کا سوچنا بھی پاگل پن ہو گا۔
 اس وقت مغل بادشاہ کے پاس چالیس لاکھ افراد پر مشتمل فوج موجود تھی۔
کیپٹن ہاکنز کی بات سالوں بعد درست ثابت ہوئی جب شہنشاہ جہانگیر نے 1632 میں بنگال میں مداخلت کی کوشش پر پرتگالیوں کو چند دن کی لڑائی میں عبرتناک شکست دی۔ اس پر ایسٹ انڈیا کمپنی بھی سہم گئی۔
کمپنی نے فیصلہ کیا کہ انڈیا میں تجارت اور کاروبار کے لیے مغل حکمرانوں کی رضامندی سے کام کیا جائے۔
ہاکنز کو شہنشاہ جہانگیر کے پاس بھیجا گیا مگر بازوق شہنشاہ نیم خواندہ ہاکنز سے متاثر نہ ہوا اور اسے کوئی رعائت نہ مل سکی۔
اس کے بعد کنگ جیمز کو آمادہ کیا گیا کہ انتہائی پڑھے لکھے رکن پارلیمنٹ اور سفارت کار سر تھامس رو کو جہانگیر کے دربار میں شاہی ایلچی کے طور پر بھیجا جائے۔
تھامس رو 1615 کو مغل درالحکومت آگرہ پہنچا اور بادشاہ کو انگلینڈ اور آئرلینڈ سے لائے شکاری کتوں سمیت بیش قیمتی تحائف پیش کیے۔

 سترھویں صدی میں کمپنی نے صرف ایک بار مغلوں کے سامنے طاقت آزمانے کی کوشش کی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔ فوٹو ویکیپیڈیا

تین سال کی مشکل سفارتکاری کے بعد سر تھامس ایسٹ انڈیا کمپنی کی سورت میں فیکٹری کے لیے مغل شہنشاہ کا شاہی فرمان اور چند دیگر رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
کمپنی نے اگلے سو سال تک مغلوں کی خوشنودی کے حصول کو اپنی پالیسی بنائے رکھا۔ 
1626 تک کمپنی نے انڈیا میں ارماگون میں ایک محفوظ اڈہ بنایا۔ پھر مدراس میں ایک تجارتی کالونی آباد کی جو جلد ہی خوشحال ہو گئی۔ کمپنی کی دوسری آبادی بمبئے میں قائم ہوئی جو دراصل پرتگال کی طرف سے انگلینڈ کے بادشاہ چارلس دوم کو جہیز میں دی گئی تھی۔ بمبئے میں کمپنی نے اپنا پہلا بحری اڈہ قائم کیا۔
سترھویں صدی میں کمپنی نے صرف ایک بار مغلوں کے سامنے طاقت آزمائی کی کوشش کی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔
سن 1681 میں کمپنی کی ڈائرکٹرشپ سر جوائش چائلڈ کے ہاتھ میں آئی تو کمپنی کے اہلکاروں نے انہیں شکایت کی کہ بنگال میں نواب شائستہ خان  کے اہلکار ٹیکس اور دیگر معاملات میں کمپنی کے کارندوں کو تنگ کرتے ہیں۔ 
نواب آف بنگال مغل بادشاہ اورنگزیب کا بھانجا تھا۔
چائلڈ نے سوچا کہ مغلوں کو سبق سکھایا جائے اس مقصد کے لیے اس نے انگلینڈ کے بادشاہ کو خط لکھا کہ اسے فوجی مدد مہیا کی جائے۔ چنانچہ سن 1686 میں لندن سے ایک بڑا بحری بیڑہ بنگال کی طرف روانہ ہوا جس میں انیس جنگی جہاز، دو سو توپیں اور چھ سو فوجی سوار تھے۔
 شاید چائلڈ نے دنیا کے سب سے امیر بادشاہ سے غلط وقت میں پنگا لے لیا تھا۔ جب برطانوی بیڑہ انڈیا پہنچا تو مغل بادشاہ دکن میں دو مقامی فتوحات سے فارغ ہی ہوا تھا اور اس کی فوج مکمل تیار تھی۔

انیسویں صدی کے شروع میں کمپنی برطانوی راج کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی قوت بن گئی۔ فوٹو ویکیپیڈیا

تاریخ دان ولیم ڈارلیمپل کے مطابق برطانوی فوجیوں کو مغل فوج نے مکھیوں کی طرح مارا اوراس کے بعد کمپنی کی بنگال میں پانچ فیکٹریوں کو تہس نہس کر کے سب انگریزوں کو بنگال سے نکال باہر کیا۔ سورت کی فیکٹری بند کر دی گئی جبکہ بمبے کو بلاک کر دیا گیا۔  کمپنی کے ملازمین کو زنجیروں سے باندھ کر شہروں میں گھمایا گیا اور انکو چوروں اورقاتلوں کی طرح شدید ہتک کا نشانہ بنایا گیا ۔ کمپنی کے پاس معافی مانگنے اور اپنی فیکٹریوں کی واپسی کے لیے بادشاہ کے دربار میں بھکاریوں کی طرح پیش ہونے کے سوا چارہ نہ رہا، اورنگزیب نے بالآخر 1690 میں کمپنی کو معاف کر دیا۔
1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد اسکی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف انڈیا کےمختلف علاقوں کے ہندووں اور دیگر لوگوں کا لاوا پھٹا تو کمپنی نے بھی اپنی پالیسی بدل لی۔
جب احمد شاہ رنگلیلا کے دور میں ایران سے نادرشاہ کے حملے اوراربوں ڈالر کی تاریخی لوٹ کھسوٹ اور انڈیا کے مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے تو کمپنی نے فائدہ اٹھاتے ہوئے تو مقامی افراد پر مشتمل لاکھوں کی فوج تیار کی اور اس کے زریعے مغلوں، مرہٹوں، سکھوں اور مقامی نوابوں کو ایک ایک کر کے زیر کرتی گئی۔
اس دوران یورپ میں صنعتی انقلاب آیا جس کی بدولت جنگی ٹیکنالوجی میں بھی یورپیوں کو برتری حاصل ہو گئی اور وہ اپنی چھوٹی مگر مؤثر فوج کے زریعے مغلوں اور دیگر حکمرانوں کی پرانی ٹیکنالوجی سے مسلح بڑی فوجوں کو شکست دیتے گئے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بدولت جنگی ٹیکنالوجی میں بھی یورپیوں کو برتری حاصل ہو گئی۔ فوٹو: ویکیپڈیا

اگست 1765 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے نوجوان مغل بادشاہ شاہ عالم کو جنگ میں ہرا کر اسے مجبور کر دیا کہ وہ بنگال میں انتظامی امور کمپنی کے حوالے کر دے۔ تاریخ دانوں کے مطابق یہ انڈیا کو نوآبادی بنانے کا سب سے اہم مرحلہ تھا جس کے بعد کمپنی انڈیا کی مالک بن بیٹھی اور جہازوں کے جہاز بھر کر انڈیا سے لوٹا ہوا مال لندن پہنچنا شروع ہو گیا۔ 
صرف میسور کے شیر کہلانے والے ٹیپو سلطان نے فرانس کی تکنیکی معاونت سے کمپنی کی حقیقی بڑی مزاحمت کی اور کمپنی کو دو جنگوں میں شکست بھی دی تاہم انڈیا کے ہی دیگر حکمرانوں کو ساتھ ملا کر کمپنی نے بلآآخر ٹیپو سلطان پر بھی قابو پا لیا اور جب سن 1799 کو کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ ویلزلے کو ٹیپو کی جنگ میں ہلاک ہونے کی خبر سنائی گئی تو اس نے اپنا گلاس ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا کہ آج میں انڈیا کی لاش پر جشن منا رہا ہوں۔ 
 اس دوران کمپنی نے برطانوی راج کی طاقت کو استعمال کیا اور انیسویں صدی کے شروع میں دنیا کی سب سے بڑی استعماری قوت بن گئی اور 20 کروڑ آبادی کے انڈیا پر قابض ہو گئی۔
عین اسی وقت برطانیہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا زوال شروع ہو گیا تھا۔
لارڈ ویلزکے دور میں ہی کمپنی جنگی کامیابیوں کے باجود مالی مسائل کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی اور اسکا قرضہ تین کروڑ پاونڈ (آج کے تقریبا  تین ارب ڈالر) سے بڑھ چکا تھا۔ کمپنی کے ڈائریکٹر نے حکومت کو ویلزلے کی فضول خرچیوں پر خط لکھا اور اسے انڈیا سے واپس بلا لیا گیا۔ 
پھر سن 1813 میں برطانوی پارلیمنٹ نے صدیوں بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی انڈیا میں تجارت پر اجارہ داری ختم کرتے ہوئے دیگر برطانوی کمپنیوں کو بھی انڈیا میں کاروبار کرنے اور دفاتر کھولنے کی اجازت دے دی۔

1857 کی بغاوت کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کا اختیار ختم کر دیا تھا ۔ فوٹو: ویکیپیڈیا

سن 1833 میں سالوں کی مسلسل کوشش کے بعد کمپنی کے برطانوی مخالفین غالب آگئے اور برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی سے حق تجارت چھین لیا اور اسے ایک گورننگ کارپوریشن میں بدل دیا۔
جب 1857 کی جنگ آزادی میں کمپنی کے اپنے بھرتی شدہ سپاہیوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی تو برطانیہ نے فیصلہ کر لیا کہ بہت ہو گیا۔ نو ماہ کی بے یقینی کے بعد آخر کمپنی نے ’بغاوت‘ (جسے انڈیا میں جنگ آزادی کہا جاتا ہے) کچل دی اور کمپنی نے آخری بار اپنی بہیمانہ طاقت کا مظاہرہ بیسیوں ہزاروں افراد کو بازاروں اور سڑکوں پر لٹکا کر اور قتل کر کے کیا۔
یہ پوری برطانوی نو آبادی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ تاہم یہ کمپنی کا آخری ظالمانہ اقدام تھا۔
برطانوی ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کے اختیارات ختم کر کے انڈیا کا انتظام براہ راست سنبھال لیا اور کمپنی کی فوج کو برطانوی فوج میں ضم کر کے اسکی نیوی ختم کر دی گئی۔ اسکے باجود کمپنی کا چارٹر1874 تک مؤثر تھا جس کے بعد کمپنی خاموشی سے تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئی۔
شاید برطانیہ کمپنی کے کارناموں پر زیادہ فخر محسوس نہیں کرتا اسی لیے آج لندن میں کمپنی کے نام کی کوئی یادگار تک نہیں ہاں کمپنی کے برانڈ کا نام اب انڈیا کی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کی ملکیت ہے جسے وہ لندن کے ایک  شو روم میں گورمے  چائے، کافی اور چاکلیٹ کی فروخت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

شیئر: