Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹر نواب باپ بیٹے کی کہانی

نواب منصور علی خان کی زندگی کے حادثات بتاتے ہیں کہ ان میں کسی ٹائیگر کی طرح ہی لڑنے کی صلاحیت تھی۔ فوٹو: سپورٹس کیڈا
نواب منصور علی خان پٹودی کو دنیا عرف عام میں ٹائیگر کے نام سے جانتی ہے، لیکن پٹودی کا کہنا تھا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کا یہ نام کیسے پڑا اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ اس لقب کے حق دار نہیں ہیں۔
تاہم ان کی زندگی کے حادثات بتاتے ہیں کہ ان میں کسی ٹائیگر کی طرح ہی لڑنے کی صلاحیت تھی۔ سب سے پہلے ایک کار حادثے میں ان کی ایک آنکھ جاتی رہی اور یہ خیال ظاہر کیا گيا کہ ان کی کرکٹ ختم ہو گئی، لیکن انھوں نے چھ ماہ سے کم ہی مدت میں کرکٹ میں واپسی کی بلکہ دنیائے کرکٹ میں انڈیا کی شکست خوردگی کی ذہنیت کو حوصلہ مندی اور فتحیابی میں بدل دیا۔
نواب پٹودی کے نام دنیا کے سب سے کم عمر ٹیسٹ کپتان رہنے کا ریکارڈ تھا جسے افغانستان کے کپتان راشد خان نے اب توڑ دیا ہے، لیکن آج بھی ان کے پاس انڈیا کے سب سے کم عمر کپتان ہونے کا ریکارڈ ہے۔

 

کرکٹ کو یوں تو آج بھی شرفا کا کھیل کہا جاتا ہے لیکن کبھی یہ امیروں اور نوابوں کا کھیل ہوا کرتا تھا کیونکہ اس کے ساتھ جو فرصت اور جو اخراجات جڑے تھے وہ امرا ہی اٹھا سکتے تھے اور شاید اسی لیے نواب منصور علی خان پٹودی کو یہ کھیل جاگیر کے ساتھ وراثت میں ملا تھا۔
منصور علی خان پٹودی کی پیدائش پانچ جنوری سنہ 1941 میں بھوپال میں ہوئی اور اتفاق سے اسی دن ان کے والد کی دہلی میں پولو کھیلتے ہوئے موت ہو گئی۔ ان کے والد نواب محمد افتخارعلی خان صدیقی پٹودی ایسے کھلاڑی رہے جنھوں نے انگلینڈ اور انڈیا دونوں ممالک کی نمائندگی کی۔
انھوں نے انگلینڈ کی جانب سے ایشز میں کھیلتے ہوئے پہلے ہی میچ میں سنچری سکور تھی۔

حادثاتی کپتان

نواب منصور علی خان پٹودی کو حادثاتی کپتان کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سے قبل انھوں نے انگلینڈ میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ 16 سال کی عمر میں انھوں نے سسکس کی جانب سے کھیلتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ میں قدم رکھا۔ انھوں نے آکسفورڈ کی نمائندگی بھی کی جہاں وہ پہلے انڈین بنے جنھیں کپتان بنایا گیا تھا۔

نواب پٹودی نے کہا کہ وہ نہ صرف دنیا کے سب سےعمر کپتان بنے بلکہ وہ اس وقت اپنی ٹیم کے بھی سب سے کم عمر کھلاڑی تھے۔ فوٹو: دی ہندو

یکم جولائی سنہ 1961 کو جب وہ محض 20 سال تھے تو ایک کار حادثے میں ان کی ایک آنکھ جاتی رہی لیکن انھوں نے اپنی آنکھ کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ان کی ایک آنکھ بچا لی۔
اسی سال منصور کو انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں کھیلنے کا موقع ملا اور 13 دسمبر کو شروع ہونے والے بے نتیجہ میچ میں انھوں نے 13 رنز بنائے۔
انڈیا کی ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر گئی ہوئی تھی اور ناری کنٹریکٹر انڈین ٹیم کے کپتان تھے جبکہ نائب کپتان منصور علی خان تھے۔
اپنے زمانے کے تیز ترین گیند باز چارلی گرفتھ کی ایک گیند سے ناری کنٹریکٹر اس قدر زخمی ہو گئے کہ ان کا اگلے ٹیسٹ میں کھیلنا مشکوک ہوگیا اور ٹیم کے مینیجر غلام احمد نے نواب پٹودی کو کہا کہ اگلے ٹیسٹ سے وہ ٹیم کی کپتانی کریں گے۔
اس وقت ان کی عمر محض 21 سال اور 70 دن تھی۔ نواب پٹودی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ نہ صرف دنیا کے سب سےعمر کپتان بنے بلکہ وہ اس وقت اپنی ٹیم کے بھی سب سے کم عمر کھلاڑی تھے۔
اس کے بعد سے وہ انڈین ٹیم کے مستقل کپتان بن گئے۔ انھوں نے کل 46 میچز کھیلے جن میں سے 40 میں انھوں نے انڈیا کی کپتانی کی۔ انھوں نے نو ٹیسٹ میچوں میں انڈیا کو فتح سے ہمکنار کرایا جبکہ 19 میچوں میں انھیں شکست ملی۔

انڈیا کے ایک کرکٹر ایراپلی پرسنا کا کہنا ہے کہ ’کلاس اور لیڈرشپ کا اندازہ پٹودی کے میدان میں اترنے سے ہی ہو جاتا تھا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

آج اسے قابل فخر ریکارڈ نہیں کہا جاسکتا لیکن جس وقت انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا وہ ریکارڈ ساز ہی تھا کیونکہ انڈین ٹیم میں اچھے کھلاڑی مفقود تھے اور ان کے حوصلے اتنے پست رہا کرتے تھے کہ وہ جیت کی سوچتے بھی نہیں تھے۔
انڈیا کے ایک کرکٹر ایراپلی پرسنا کا کہنا ہے کہ ’کلاس اور لیڈرشپ کا اندازہ پٹودی کے میدان میں اترنے سے ہی ہو جاتا تھا۔ شاید دنیا میں دو ہی کھلاڑی ایسے ہوئے جنھیں ان کی کپتانی کے سبب ٹیم میں شامل کیا جاتا تھا ایک انگلینڈ کے مائیک بریئرلی اور دوسرے منصور علی خان پٹودی۔‘
سنہ 1977 میں پٹودی کو جب یہ احساس ہوا کہ انھیں گیند نظر نہیں آتی ہے تو انھوں نے انڈین کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر راج سنگھ ڈنگرپور سے کہا کہ انھیں ٹیم میں منتخب نہ کیا جائے کیونکہ وہ گیند نہیں دیکھ سکتے۔ یہ سن کر راج سنگھ نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’آپ کو آپ کی بلے بازی کے لیے نہیں بلکہ کپتانی کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے۔‘

کرکٹ میں گلیمر

یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نواب پٹودی نے اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے شادی کی لیکن یہ کم ہی لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ اداکارہ سیمی گریوال کے بھی بہت قریب تھے۔
نواب پٹودی کا میچ دیکھنے کے لیے اداکار اداکارائیں بھی جایا کرتی تھیں۔ نواب پٹودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بے خوف کھلاڑی تھے اور اپنی مرضی سے جہاں چاہتے چھکے مار سکتے تھے۔

نواب پٹودی نے اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے شادی کی۔ فوٹو: دی برائڈل باکس

ان کی اسی بات کو اس قدر بڑھا چڑھا دیا گيا کہ اسے ان کے اور شرمیلا کے رومانس سے جوڑ دیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ ایک بار جب وہ میدان میں کھیل رہے تھے تو انھوں نے چھکا مارتے ہوئے گیند شرمیلا ٹیگور کے آنچل میں پہنچا دی تھی تاہم اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سیمی گریوال کے ٹی وی پروگرام ’رینداوو‘ میں سیمی نے پوچھا کہ آپ میڈیا سے اس قدر دور کیوں رہتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے۔ وہ تو کرکٹ کمنٹری بھی کر چکے ہیں اور ایک عرصے تک میگزین بھی نکال چکے ہیں۔‘ لیکن یہ سچ ہے کہ انھوں نے کرکٹ میں گلیمر تو پیدا کیا لیکن وہ اس سے دور رہنا زیادہ پسند کرتے تھے۔
نواب پٹودی نے بلے بازی کے علاوہ فیلڈنگ کو بھی گلیمر بنا دیا۔ وہ چیتے کی سی تیزی کے ساتھ گیند پر جھپٹے تھے۔ اس زمانے میں وہ شاید دنیا کے بہترین فیلڈر ہوا کرتے تھے۔
کرکٹ چونکہ امراء کا کھیل ہوتا تھا اس لیے لوگ ایتھلیٹ ہونے کے باوجود گیند کے لیے گرنے کو کسر شان سمجھتے تھے۔ چنانچہ معروف کرکٹر دلیپ سر دیسائی کے بیٹے راج دیپ سردیسائی نے لکھا ہے کہ ’انڈیا کے جتنے بھی شہزادوں نے کرکٹ کھیلی ہے ان میں رنجی (رنجیت سنگھ جی) بھی شامل تھے اور وہ اپنی بلے بازی کے لیے جانے جاتے تھے نہ کہ فیلڈنگ کے لیے۔‘
سر دیسائی کے مطابق ’ویسے بھی انڈیا کے برہمن سماج میں فیلڈن پسماندہ ذات کا کام تصور کیا جاتا تھا۔ پٹودی نے جارحانہ بلے بازی کے ساتھ فیلڈنگ کو بھی فیشن بنا دیا۔ جس طرح وہ کوورز پر کھڑے ہو کر گیند کا پیچھا کرتے لگتا کہ کوئی چیتا جست لگا رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کا نام ٹائیگر پڑا۔‘

یہ کم ہی لوگوں کو پتہ ہے کہ پٹودی اداکارہ سیمی گریوال کے بھی بہت قریب تھے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

سیمی گریوال سے گفتگو کرتے ہوئے نواب منصور پٹودی نے ایک بار کہا تھا کہ انھیں یہ نام گھر میں ملا تھا لیکن کس لیے ملا وہ پتہ نہیں البتہ انھوں نے کہا کہ وہ بہت پھرتیلے ہوا کرتے تھے اور 'بچپن میں جھاڑیوں میں بہت دوڑا کرتے تھے لیکن کیوں دیا گیا یہ واقعی معلوم نہیں۔
جب انھوں نے کہا کہ وہ اس کے حقدار نہیں تو سیمی نے کہا کہ آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں جس پر نواب پٹودی نے کہا تھا کہ ’شیر بہت خوفناک ہوتا ہے جبکہ میں کھبی بھی خوفناک نہیں تھا بلکہ میں چپ رہنے والا شریف بچہ تھا۔‘
سیمی نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ بچپن میں نہ ہوں لیکن کرکٹ فیلڈ میں تو تھے ہی جس پر نواب پٹودی نے کہا کہ وہ 'خوفناک تو بالکل نہیں تھے البتہ مقابلے میں یقین ضرور رکھتے تھے۔‘
سیمی گریوال نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ سارے شہزادے شریف ہوتے ہیں تو نواب پٹودی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے وہ بہت سے ایسے شہزادوں کو جانتے ہیں جو شریف نہیں تھے، پھر سیمی نے یہ الزام لگایا کہ انھیں امپائر ’یور ہائینس‘ کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے۔ جس کے جواب میں پٹودی نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں تھا بلکہ انھیں کئی بار ایل بی ڈبلیو بھی آوٹ دیا گیا ہے۔
سیمی گریوال نے کہا کہ لیکن یہ بات ایک زمانے تک گشت کرتی رہی تو نواب منصور علی خان نے جواب دیا کہ یہ بات سچ نہیں تھی لیکن انھوں اس افواہ کی تردید نہیں کی کیونکہ یہ مزیدار بات تھی۔

منصور علی خان کو ’پلے بوائے‘ کا ٹیگ بھی دیا گيا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جب ان سے پوچھا گیا کہ انھیں ’پلے بواے‘ ٹیگ دیا گيا تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک کرکٹر ڈیوڈ گرین کی مہربانی تھی کیونکہ جب انھیں میرے پس منظر کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے کہا کہ مجھے کیا ہونا چاہیے اور پھر انھوں نے یہ اصطلاح استعمال کی۔
نواب پٹودی کو ٹائیگر کہا جاتا ہے لیکن انھیں ہوائی جہاز کے سفر سے بہت ڈر لگتا تھا اور وہ ہمیشہ ٹرین سے سفر کرنا پسند کیا کرتے تھے۔
نواب پٹودی سے جب پوچھا گیا کہ کیا انھیں کرکٹ وراثت میں ملی تو انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں سب کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ان کے نوکر چاکر، یہاں تک کہ باورچی بھی۔ کرکٹ کھیلتے تھے اور سب مل جل کر کھیلا کرتے تھے۔
پٹودی کو موسیقی بہت پسند تھی اور انھیں ہارمونیم اور طبلہ بجانے کا شوق تھا۔ ان کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور کا کہنا ہے کہ ’پٹودی کو طبلے کا اتنا شوق تھا کہ وہ کبھی کبھی معروف سرود نواز امجد علی خان کے ساتھ طبلہ پر ان کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے۔‘
نواب پٹودی نے سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے انھیں سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی لیکن جب راجیو گاندھی (انڈیا کے سابق وزیراعظم) نے سیاست میں آنے کی دعوت دی تو وہ انھیں منع نہیں کر سکے۔ لیکن وہ انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے اور پھر جب راجیو گاندھی کا قتل ہو گیا تو ان کی سیاست سے دلچسپی ختم ہو گئی۔
نواب پٹودی نے 46 میچز میں کل 2793 رنز بنائے جس میں چھ سنچریاں اور 16 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان کے رنز ان کی اصل صلاحیت کے غماز نہیں ہیں کیونکہ انھیں ایک آنکھ سے کریز کی گہرائی کا اندازہ لگانے میں پریشانی ہوتی تھی۔
ان کا خود کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹنگ اس سے کم از کم 30 فیصد متاثر ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اسی وجہ سے کار ڈرائیو بھی نہیں کر سکتے۔

نواب پٹودی کا ستر سال کی عمر میں 22 ستمبر سنہ 2011 میں دہلی میں انتقال ہوا۔ فوٹو: آؤٹ لک انڈیا

ایک انٹرویو میں نواب منصور پٹودی نے بتایا کہ انھوں نے کانٹیکٹ لینس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی لیکن انھیں گیند دو نظر آتی تھی اور انھیں اندر والی بال کو مارنا ہوتا تھا اور دونوں میں تقریبا ایک فیٹ کی دوری ہوتی تھی۔ پھر انھوں نے کانٹیکٹ لینس ہٹا دیا اور پھر انھوں نے اپنی داہنی آنکھ پر ہیٹ گرا کر کھیلنا شروع کیا، لوگ سمجھتے کہ یہ سٹائل ہے لیکن ویسا بالکل نہیں تھا۔
نواب منصور علی خان پٹودی کی والدہ بھوپال کی شہزادی تھیں۔ نواب منصور پٹودی کی دو بیٹیاں ایک بیٹا ہوا۔ ایک بیٹی سوہا علی خان اور ایک بیٹا سیف علی خان فلموں کے معروف اداکار ہیں جبکہ بڑی بیٹی صبا علی خان زیورات کی معروف ڈیزائنر ہیں۔
نواب پٹودی کا ستر سال کی عمر میں 22 ستمبر سنہ 2011 میں دہلی میں انتقال ہوا اور انھیں دہلی کے پاس پٹودی میں سپرد خاک کیا گيا۔ اب ان کی جگہ ان کے بیٹے سیف علی خان کے پاس نواب کا ٹائٹل ہے حالانکہ راج شاہی حکومت کا سنہ 1971 میں خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ 

شیئر: