Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراق میں امریکی فوجیوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ

عراق کی مختلف ایئر بیسز پر 52 سو کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں، فوٹو: روئٹرز
عراقی پارلیمنٹ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ ملک میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو نکالا جائے۔
واضح رہے کہ عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور عراقی حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
عراق میں اس وقت مختلف ایئر بیسز پر 52 سو کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں جن کا مقصد داعش کو دوبادہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے عراقی فوج کی مدد کرنا بتایا جاتا ہے۔

 

عرب نیوز کے مطابق عراق میں امریکی تنصیبات پر دباؤ ہے کیونکہ امریکی سفارت خانے کے علاقے میں اور دارالحکومت کے شمال میں واقع ایئر بیس میں رہائش پذیر امریکی فوجیوں پر میزائل داغے جا رہے ہیں۔
عراق کی وزارت خارجہ نے بھی امریکی سفارت کار کو طلب کیا، جبکہ نگران وزیر اعظم عدل عبدل مہدی نے ایک غیر معمولی پارلیمانی اجلاس طلب کیا اور امریکی حملے کو ’سیاسی قتل‘ قرار دیا۔
یاد رہے کہ عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کو عراقی حکومت نے داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے 2014 میں مدعو کیا تھا۔
اسمبلی کے سپیکر محمد ہلبوسی نے کہا کہ ’پارلیمنٹ نے امریکی فوجیوں کی عراق میں داعش کے خلاف لڑنے کے لیے بین الاقوامی اتحاد کو دی گئی درخواست واپس لینے کے لیے ووٹ دیا ہے۔‘
نگران عراقی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس دو آپشنز ہیں، ہم فوری طور پر غیرملکی افواج کو نکالنے کے لیے ووٹ کریں یا پارلیمانی طریقے سے ان کی عراق میں موجودگی کے جواز کا دوبارہ جائزہ لیں۔‘

عراق میں اتحادی افواج نے ممکنہ حملوں کے پیش نظر اپنے آپریشنز محدود کر دیے ہیں، فوٹو: روئٹرز

ایران کی حمایت یافتہ حشد الشابی ملٹری فورس سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ تمام غیر ملکی فوجیوں کو فوری طور پر عراق سے نکالا جائے۔
واضح رہے کہ عراق میں امریکی قیادت میں سرگرم اتحادی افواج نے ممکنہ حملوں کے پیش نظر اپنے آپریشنز محدود کر دیے ہیں۔
عراق کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’امریکی سفارت کار میتھیو ٹیولر کو طلب کر کے حملے کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عراق کی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہ بین الاقوامی اتحاد کے مشن کے بھی خلاف ہے۔‘
وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے اقوام متحدہ کو بھی شکایت درج کروائی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قاسم سلیمانی کی موت کو ایک ’قتل‘ سمجھ کر اس کی مذمت کرے۔‘
واضح رہے کہ جمعے کو امریکہ کی جانب سے عراق کے دارالحکومت بغداد میں کیے گئے ایک فضائی حملے میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ سے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ ایران نے کہا تھا کہ خطے میں امریکہ کی 35 تنصیبات ایران کے نشانے پر ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے، فوٹو: روئٹرز

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا تو امریکہ اس کے جواب میں زیادہ سخت اور شدت کے ساتھ کارروائی کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ ’ایران اپنے جنرل کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے برے انداز میں بات کر رہا ہے اور اگر اس نے ایسی کوئی حرکت کی تو امریکہ ’بہت تیزی اور شدت سے‘ ایران کی ایسی 52 اعلیٰ سطح کی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرے گا جو اس کی ثقافت کے لیے نہایت اہم ہیں۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں