Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجداری مقدمات میں معاونت کا بل منظور

مجوزہ قانون کے تحت دوسرے ملک سے کسی شخص کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے کئی شہری جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں جبکہ بعض شہری دوسرے ملکوں میں جرم کے مرتکب ہو کر واپس پاکستان آ جاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی کچھ  قانونی کمزوریوں یا پیچیدگیوں کے باعث ممکن نہیں ہوتی۔
انہی قانونی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی نے ’دوسرے ملکوں سے فوجداری معاملات پر قانونی معاونت‘ کا بل منظور کیا ہے۔ بل وزارت داخله کى جانب سے پىش کیا گیا تھا۔
مجوزہ قانون کے تحت پاکستان میں فوجداری جرائم کے مرتکب وہ افراد جو پاکستان سے باہر کسی ملک میں مقیم ہیں ان سے تحقیقات کرنے، ان کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے، سرچ وارنٹ حاصل کرنے اور دستیاب شواہد کو ملک واپس لانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
18 صفحات پر مشتمل اس طویل بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات کے سلسلے میں مختلف ممالک کے قوانین میں یکسانیت نہ ہونے اور باہمی روابط کے کمزور طریقہ کار کی وجہ سے کئی چیلجنز کا سامنا ہے۔

قومی اسمبلی سے یہ بل منظوری کے بعد اب سینیٹ سے مںظور کرایا جائے گا۔ فوٹو: پی آئی ڈی

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قانونی تحفظ درکار ہے۔ فوجداری مقدمات میں باہمی قانونی تعاون موجودہ خلا کو پر کرنے میں مدد دے گا۔ اس قانون کے تحت قانونی مدد کے لیے درخواست دینے والے ممالک ایک دوسرے سے تعاون کے پابند ہوں گے۔
اس قانون کے تحت قانونی معاونت کے لیے ایک مرکزی اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
یہ اتھارٹی سیکرٹری داخلہ یا ان کے نامزد کردہ افسران پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ مرکزی اتھارٹی کسی دوسرے ملک کو پاکستان کی جانب سے کسی جرم میں تحقیقات یا کارروائی میں قانونی معاونت کی درخواست کرے گی، جس کا ارتکاب پاکستان یا پاکستان سے باہر کیا گیا ہو۔

 

اتھارٹی کسی دوسرے ملک سے گواہوں، ملزموں، مشتبہ افراد  کی جگہ (لوکیشن) اور شناخت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسی طرح اتھارٹی شواہد اور ملزم کی تلاش کے لیے سرچ وارنٹ سمیت دیگر قانونی دستاویزات اور اگر شواہد ملیں تو متعلقہ ملک کے قانون کے تحت ضبط کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
دوسرے ملک کے قانون کے مطابق جرم کی نوعیت کے مطابق نہ صرف جائیداد ضبط یا منجمد کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے بلکہ شواہد، دستاویزات، پراپرٹی وغیرہ بھی پاکستان منتقل کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ بیرون ملک سے کسی شخص کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔
قانون کے تحت باہمی معاہدہ کرنے والے ممالک ایک دوسرے سے کسی مطلوبہ شخص کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بینک اکاؤنٹس، مالی معاملات اور بزنس ریکارڑ کی بھی معلومات حاصل کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی فوجداری جرم کی تحقیقات یا کارروائی کے لیے باہمی قانونی معاونت کے لیے بھی ممالک درخواست دے سکتے ہیں اور یہ درخواست بھی اسی قانون کے تحت قائم مرکزی اتھارٹی ہی وصول کرے گی۔

پاکستان میں قید کاٹنے والے شخص کی بیرون ملک منتقلی کے لیے اتھارٹی عدالت سے ٹرانسفر آرڈر حاصل کرے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں اثاثے منجمد یا ضبط کرنے یا جرمانے کی وصولی کی درخواست پر اتھارٹی عدالت سے رجوع کرے گی تاہم کوئی بھی شخص پاکستان کے رائج قانون کی بنیاد پر سوال کا جواب دینے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔
اگر قانونی معاونت کی درخواست پاکستان کی خود مختاری، سکیورٹی، عوامی اور قومی مفاد کے خلاف ہو، کسی شخص کی نسل، جنس، مذہب، قومیت، سیاسی رائے یا زبان کے حوالے سے سزا دینے کی غرض سے ہو تو پاکستان انکار کر سکتا ہے۔
اس قانون کے تحت قانونی معاونت کے عمل کے دوران منجمد یا ضبط کیا گیا کوئی ریکارڈ اس وقت تک ملک سے باہر نہیں بھیجا جائے گا جب تک اتھارٹی مطمئن نہ ہو۔ پاکستان کی طرف سے فراہم کیا گیا کوئی بھی مواد تحقیقات یا عدالتی کارروائی کے علاوہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔
قانون کے تحت پاکستان میں قید کاٹنے والے افراد کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کی درخواست بھی وصول کی جا سکتی ہے۔ تاہم پاکستان میں قید کاٹنے والے شخص کی بیرون ملک منتقلی کے لیے اتھارٹی عدالت سے ٹرانسفر آرڈر حاصل کرے گی۔ ٹرانسفر آرڈر میں تحریری طور پر متعلقہ ملک سے ضمانت لی جائے گی کہ مذکورہ شخص کو کسی تیسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں