Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چند منٹ کی کارروائی میں تین بل پاس ہوئے‘

منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس جس میں سروسز ایکٹ میں ترمیم ایجنڈے کا حصہ تھی، اس اعتبار سے دلچسپ ضرور تھا کہ تلاوت و ترانے کے بعد ایک کے بعد ایک بل پیش ہوا اور چند منٹ کی کارروائی میں تین بل پاس ہوگئے۔
یوں کہہ لیجیے کہ 12 منٹ میں تین بل منظور ہوگئے گویا فی بل چار منٹ تک کارروائی ہوئی۔ اور یہ بل منظور ہونا اچھنبے کی بات بھی نہیں تھی کیونکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے تو پہلے ہی کبھی ’غیر مشروط‘ حمایت اور کبھی کسی ’دوسری قسم‘ کی حمایت کا یقین دلا رکھا تھا بلکہ اس کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔
 صرف جمعیت علمائے اسلام-ف، جماعت اسلامی اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے دونوں ارکان علی وزیر اور محسن داوڑ نے مخالفت کی۔ ’نو نو‘ کے نعرے لگائے، بل کی کاپیاں پھاڑیں اور ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔
علی وزیر اور محسن داوڑ نے دوسروں کی نسبت احتجاج کو قدرے طویل کیا اور سپیکر ڈائس کے قریب آکر بل کی کاپیاں تار تار کیں، کاغذ کے ٹکڑے چبوترے پر پھینک کر ایوان سے باہر گئے۔
بل پاس ہونے کے بعد امکان تھا کہ پارلیمانی رہنما یا کم از کم وزیر اعظم یا وزیر دفاع ایوان کا شکریہ ادا کریں گے لیکن انہوں نے یہ بھی ضروری نہ سمجھا اور سپیکر نے اجلاس کل تک ملتوی کر دیا۔

جمعیت علمائے اسلام-ف، جماعت اسلامی اور قبائلی اضلاع کے دونوں ارکان نے مخالفت کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

یہ پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ کسی نے قومی سلامتی کے متعلق قانون سازی کے نہ تو اغراض و مقاصد بیان کیے اور نہ اس حوالے سے ملکی سلامتی پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالی۔ دوسری جانب اس بل کی حمایت کرنے والوں نے بھی ایوان کے فلور پر اپنی حمایت کی وجوہات بتانا مناسب نہ سمجھا۔
اجلاس کی کارروائی جاری تھی تو حکومتی بینچوں پر انجانی خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ ارکان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وزیر اعظم بھی اپنے ساتھی وزرا سے بات چیت کرتے اور بعض اوقات مباحثانہ انداز میں نظر آئے  لیکن دوسری جانب اپوزیشن بالخصوص ن لیگ کی نشستوں پر گہری خاموشی تھی۔ ارکان کی نظریں نیچی اور بل کے مسودے پر ٹھہری ہوئی تھیں۔

کون کون غیر حاضر تھا؟

اپوزیشن کی پہلی رو میں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری اور خورشید شاہ بھی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ حالانکہ سپیکر نے اجلاس میں شرکت کے لیے اسیر ارکان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری کر رکھے تھے۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلاول بھٹو زرداری کی طبیعت ناساز تھی اس وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ پارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ صورتحال کا جائزہ لے کر ان کے اجلاس میں آنے کا طے کریں گے لیکن ان کی طبیعت میں بہتری نہیں آئی۔‘

پارلیمانی گیلریوں میں کیا ہوتا رہا؟

یہ شاید پارلیمانی تاریخ کا پہلا دن تھا جب اکثریت بظاہر اس بل کے خلاف تھی لیکن مخالفت میں ووٹ دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جاری تھا۔ ارکان کی جانب سے اس بل کے حوالے سے کھل کر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ارکان اپنی قیادت سے بل کی حمایت کی وجہ پوچھ رہے تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ بس نواز شریف کا حکم ہے تو آپ سب کو ووٹ دینا ہے۔ اجلاس ختم ہوا تو پارٹی کے کسی ایک رہنما نے بھی پارٹی فیصلے پر بات کرنے کی جرات نہ دکھائی اور سب ایوان میں چلے گئے۔

فردوس عاشق اعوان بولیں ’میں تو بوٹ دیکھ رہی تھی کہہ کچھ نہیں رہی۔۔۔‘ فائل فوٹو

’اردو نیوز‘ نے ایک لیگی رکن کو روک کر پوچھا کہ کیا کسی نے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’سب نے تحفظات کا اظہار کیا۔ میں نے بھی کیا۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ تو کیا کوئی ایسا ہے جو ووٹ نہیں دے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ ’پارٹی اجلاس میں تحفظات کا اظہار کر دیا لیکن پارٹی فیصلے کے تحت ووٹ سب دیں گے۔‘
لاہور سے لیگی رکن شائستہ پرویز جو کہ مریم نواز کے بڑی قریبی سمجھی جاتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کے والد صاحب کے بعد مریم نواز کے تحفظات کی کوئی اہمیت نہیں بچتی۔ وہ خاموش ہیں ان کا ٹوئٹر خاموش ہے تو ان کے تحفطات ہم تک پہنچے ہی نہیں۔ ہم میں تو ہمت نہیں ہے کہ نواز شریف کے فیصلے کے خلاف ووٹ کریں۔‘
پارلیمانی راہداریوں میں حکومتی ارکان بھی صحافیوں کے ساتھ گپ شپ میں ن لیگ کے ’چیزے‘ لیتے نظر آئے۔ ن لیگ اجلاس کے باہر کھڑے صحافیوں سے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے گزرتے ہوئے پوچھا کیا کر رہے ہو تو کسی نے جواب دیا ’ڈٹ جانے کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں‘ تو انہوں نے سر نیچے جھکا لیا اور اگلے لمحے بولیں ’میں تو بوٹ دیکھ رہی تھی کہہ کچھ نہیں رہی۔۔۔‘

شیئر: