Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جواہر لال یونیور سٹی کے طلبہ پر پھر لاٹھی چارج، درجنوں گرفتار

پولیس کی موجودگی میں باہر سے نقاب پوش یونیورسٹی میں داخل ہوئے ( فوٹو: ہندوستان ٹائمز)
انڈیا کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے جمعرات کو دار الحکومت دہلی میں وزارت فروغ انسانی وسائل تک مارچ کیا جہاں ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی، طلبہ کے خلاف پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور بہت سے مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
در اصل جمعرات کی صبح جے این یو کی طلبہ یونین اور ٹیچرز یونین نے فروغ انسانی وسائل (ایچ آر ڈی) کی وزارت  کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات کی لیکن طلبہ یونین کی صدر آئیشی گھوش نے اسے 'غیر اطمینان بخش قرار دیا اور منڈی ہاؤس سے ایچ آر ڈی کے دفتر تک ریلی کی کال دی لیکن وہاں سے جوں ہی طلبہ نے راشٹرپتی بھون کا رخ کیا پولیس نے انھیں روک لیا اور ان کے درمیان جھڑپ ہوئی۔
آئیشی گھوش نے کہا کہ 'ہم وزارت کے ساتھ کوئی مصالحت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ ابھی تک یہ سوچ رہی ہے کہ آیا وائس چانسلر کو ہٹایا جائے یا نہیں‘۔
یاد رہے کہ اتوار کے روز جے این یو میں بڑے پیمانے پر نقاب پوش افراد نے طلبہ اور اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے لیے بڑی تعداد نے حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا کیونکہ پولیس کی موجودگی میں باہر سے نقاب پوش یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور کئی گھنٹوں تک تشدد اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد وہاں سے نکل گئے۔

طلبہ کے خلاف پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور بہت سے مظاہرین کو حراست میں لے لیا ( فوٹو: اے ایف پی)

 تصاویر میں ان کی شناخت ہونے کا دعوی کیے جانے کے بعد بھی ابھی تک اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے جبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ طلبہ کے دو گروپ کے درمیان جاری کشیدگی کا نتیجہ تھا۔
اس سے قبل انڈیا میں حزب اختلاف کی اہم پارٹی کانگریس نے جے این یو میں ہونے والے تشدد کو 'سرکار کی جانب سے کرائی جانے والی غنڈہ گردی کہا ہے اور کہا کہ اس کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ اور ایچ آر ڈی وزیر رمیش پوکھریال ذمہ دار ہیں۔ کانگریس نے حملہ کرنے والوں کی فوری شناخت اور گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
کانگریس نے کہا ہے کہ جے این یو میں امن اسی وقت بحال ہو سکتا ہے جب وائس چانسلر کو ہٹایا جایا۔
دوسری جانب حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک اہم رکن مرلی منوہر جوشی نے ایک ٹویٹ میں وی سی کو ہٹانے کی بات کرتے ہوئے لکھا: 'جے این یو کے وی سی کو دو بار مبینہ طور پر مشورہ دیا گیا ہے کہ جے این یو کی فیس میں اضافے کے متعلق کوئی قابل عمل فارمولہ اختیار کریں اور معاملے کو حل کریں۔ 
انھیں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ اساتذہ اور ٹیچر سے رابطہ کریں۔ یہ بہت ہی افسوس ناک بات ہے کہ وی سی حکومت کے مشورے پر عمل نہ کرنے پر اڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح کا رویہ قابل مذمت ہے اور میرے خیال سے انھیں ان کے عہدے پر برقرار نہیں رہنے دیا جانا چاہیے۔
کنہیا کمار کی للکار
وزارت فروغ انسانی وسائل تک منعقدہ مارچ میں جے این یو طلبہ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا:  'سٹوڈنٹس پر ظالمانہ حملوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طلبہ اور اساتذہ ملک کا قانون نہیں توڑیں گے بلکہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو توڑ دیں گے۔
وزات کی عمارت کے باہر یکجا مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کنہیا کمار نے کہا: 'وہ ہمیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا ممبر کہتے ہیں۔ میں یہاں سڑک پر اپنا چہرہ چھپائے بغیر کھڑا ہوں اور اعتراف کرتا ہوں کہ ہاں! میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا رکن ہوں۔ لیکن ہم اس ملک کو توڑ نہیں رہے ہیں۔ ہم بی جے پی کو ضرور توڑ دیں گے۔
اس سے قبل دہلی میں ہی شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسی) کے رہنما ڈی راجہ نے امت شاہ اور نریندر مودی کو 'ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا رکن بتایا۔ انھوں نے کہا: امت شاہ کہتے ہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ۔ اگر مودی اور شاہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ نہیں تو پھر کون ہے؟ یہ حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ جے این یو کے لڑنا سیکولر جمہوری ملک کےلیے لڑنا ہے۔ جے این یو کو نشانہ بنانا اس سیکولر جمہوریہ کو 'ہندو راشٹر بنانے کی مذموم کوشش ہے۔

یہ طلبا کئی ہفتوں سے شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ (فوٹو:اے ایف پی)

جبکہ کنہیا کمار نے کہا: 'ہمیں یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک یونیورسٹی کو بار بار کیوں بدنام کیا جا رہا ہے۔ طلبہ کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو غدار وطن کا تمغہ کیوں دیا جارہا ہے؟ دیپکا پاڈوکون جے این یو آئیں، انھوں نے کچھ نہیں کہا۔
 دیپکا نے نہ تو وزیر اعظم مودی کا نام لیا اور نہ ہی وزیر داخلہ کا۔ بس زخمی طلبہ سے ملاقات کی اور واپس چلی گئیں۔ اس کے فورا بعد بی جے پی کے حامیوں نے ان کی فلم کا بائیکاٹ کرنے کی جنگ چھیڑ دی۔ اگر انھوں نے کسی جماعت یا نظریے کا نام نہیں لیا تو آپ ان کی فلم کیوں نہیں دیکھیں گے؟
اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 'اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جے این یو میں ہونے والے تشدد کے پس پشت حکومت کے حامی تھے۔ وی سی نے کہا کہ مشاہیر کو ایسے طلبہ سے ملنا چاہیے جو پڑھائی نہیں کر پا رہے ہیں۔ کوئی انھیں یاد دلائے کہ طلبہ اور اساتذہ سے بات کرنا ان کا کام ہے۔ دیپکا جے این یو کی وائس چانسلر نہیں ہیں۔
اس سے قبل جب دیپکا جے این یو کے طلبہ کی حمایت میں یونیورسٹی پہنچی تھیں تو اس وقت وہاں کنہیا کمار بھی موجود تھے اور انھوں نے وہاں طلبہ اور اساتذہ سے خطاب بھی کیا تھا۔ 
دہلی کے علاوہ گذشتہ روز انڈیا بھر میں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کی حمایت میں ٹریڈ یونینز نے ہڑتال کی کال دی اور انھوں نے دعوی کیا کہ ملک بھر سے کروڑوں افراد اس میں شریک ہوئے۔ آسام، مغربی بنگال، کیرالہ، پنجاب اور ملک کی مختلف دوسری ریاستوں میں ہڑتال کا خاطر خواہ اثر نظر آیا۔
انھوں نے حکومت کی مبینہ مزدور مخالف پالیسیوں کے خلاف ہڑتال کی کال دی تھی۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت محنت کے قانون میں تبدیلی کرکے مزدوروں کے حقوق کی پامالی کر رہی ہے اور لیبر کوڈ کے نام پر موجود حالیہ نظام کو مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔
 

شیئر: