Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب آرڈیننس میں ترمیم سے کس کو فائدہ؟

حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے نیب قوانین میں ترمیم لائی گئی ہے۔ فوٹو: بی آر ٹی فیس بک
پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترمیم کے بعد ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں الزام عائد کر رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے نیب کا ترمیمی آرڈیننس اپنے لوگوں کو فائدہ پہچانے اور احتساب کے عمل سے بچانے کے لیے متعارف کروایا ہے۔
جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے کاروباری افراد کو بے جا تنگ نہ کرنے اور بیوروکریسی کے کام میں رکاوٹ دور کرنے کے لیے نیب قانون میں ترمیم لائی گئی ہے۔

 

نیب قوانین میں متعارف کی گئی ترامیم سے نیب عدالتوں میں جاری مقدمات پر کتنا اثر پڑے گا اور کاروباری افراد کس حد تک اس ترمیم سے مستفید ہوں گے، یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے چند ماہرین سے بات کی ہے۔

نیب عدالتوں میں جاری مقدمات پر کیا اثر پڑے گا؟

قومی احتساب بیورو کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا اس ترمیم کے ذریعے اختیارات کے ناجائز استعمال کی تعریف کی وضاحت کی گئی ہے۔ ’اختیارات کے ناجائز استعمال کی تعریف پہلے سے موجود ہے اس میں مزید وضاحت کر دی گئی ہے، جس کے مطابق اختیارات کے ناجائز استعمال سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا ہو یا کسی کو پہنچایا گیا ہو اور مالی فوائد حاصل کرنے سے آمدن سے زائد اثاثے بنائے گئے ہوں۔‘
عمران شفیق کے مطابق اب نیب کو آمدن سے زائد اثاثہ جات بھی ثابت کرنا ہوں گے۔ ’اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کے دوران اب آمدن سے زائد اثاثوں کی بھی تحقیقات کرنا ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے شواہد اب نیب کو دینا ہوں گے اور اس کے علاوہ اس ترمیم کے بعد اثاثوں کا حساب لگاتے وقت اثاثوں کی قیمت اب سرکاری نرخوں پر لگائی جائے گی ’پہلے نیب اثاثوں کی مالیت مارکیٹ کے ریٹ دیکھ کر لگاتا تھا، اب نیب پابند ہے کہ وہ ڈی سی ریٹ یا ایف بی آر کے ریٹ کے مطابق اثاثوں کی مالیت بتا کر تفتیش کرے۔‘
انہوں نے کہا کے اختیارات کے ناجائز استعمال کا مقدمہ اب اس وقت ہی بنے گا جب ملزم اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

نیب کے سابق پراسیکیوٹر کے مطابق نیب کو یہ ثابت کرنا ہوگا  کہ اس منصوبے کے بعد اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

نیب کے سابق پراسیکیوٹرعمران شفیق کہتے ہیں کہ نیب کو احسن اقبال کے نارووال سپورٹس سٹی مقدمے میں یہ ثابت کرنا ہوگا  کہ اس منصوبے سے پہلے احسن اقبال کے اثاثے کتنے تھے اور اس منصوبے کے بعد اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف اور فواد حسن فواد کے کیسز میں نیب نے صرف اختیارات کے ناجائز استعمال کا مقدمہ بنایا ہے اب نیب کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال سے ملزمان کو کیا مالی فائدہ حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا ’ان تمام کیسز میں جن میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی، نیب کو نئے قانون کے تحت کارروائی کرنا ہوں گی۔ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ٹرمینل کیس، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے مقدمات میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ اس کےعلاوہ جن کیسز میں نیب نے ابھی تک ضمنی ریفرنسز دائر کیے ان مقدمات میں بھی نئے قوانین کے تحت تفتیش کرنا ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے خلاف جو مقدمات نیب عدالت میں زیر التوا ہیں ان تمام کیسز میں نئی ترامیم کا اطلاق ہوگا۔ ’ان تمام کیسز میں ریفرنس فائل کرنے کے باوجود ابھی چالان نامکمل ہے اور معاملہ نیب کے زیر تفتیش ہے اور نیب مجاز ہے کہ نئے قوانین کے تحت  تفتیش کرے۔‘

بی آر ٹی کیس: نیب آرڈیننس سے کس طرح متاثر ہوگا؟

نیب کے سابق پراسیکیوٹرعمران شفیق کہتے ہیں کہ پشاور بی آر ٹی منصوبے سے قومی خزانے کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے علاوہ اب نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ پرویز خٹک یا دیگر ملزمان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’بی آر ٹی ہو، مالم جبہ کیس ہو یا ملین ٹری سونامی پراجیکٹ، اس سے اربوں روپے کا نقصان ہوا ہوگا، لیکن نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ اس نقصان کی وجہ سے کس کے اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے، اگر اثاثوں میں اضافہ ثابت نہیں کرسکتے تو کرپشن کا چارج فریم نہیں ہوگا۔‘

اشفاق تولہ کے مطابق ڈیڑھ سال پہلے کیا حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا؟ فوٹو: پی آئی ڈی

انہوں نے کہا کہ اب اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمے کے ساتھ آمدن سے زائد اثاثے بھی ثابت کرنا ہوں گے جسے ثابت کرنا انتہائی مشکل کام  ہے۔

ترمیمی آرڈیننس سے صنعتکاروں کو کتنا فائدہ ہوگا؟

معروف ٹیکس کنسلٹنٹ اشفاق تولہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ڈیڑھ سال بعد خیال آیا کہ نیب کی وجہ سے معیشت کا پہیہ رکا ہوا تھا، ڈیڑھ سال پہلے کیا حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا؟
انہوں نے کہا اگر حکومت نے صرف صنعت کاروں کو فائدہ دینے کے لیے ترمیم کرنا تھی تو اس میں عوامی عہدہ رکھنے والوں کے حوالے سے ترمیم کیوں کی گئی؟ ’میرا خیال ہے کہ یہ این آر او پلس ہے اور حکومت کی نیت کو جانچا جائے تو ان پر اپنے لوگوں کا دباؤ ہے۔‘
اشفاق تولہ کے مطابق تحریک انصاف کے اپنے لوگوں پر بھی کیسز ہیں جس کی وجہ سے یہ ترمیم لائی گئی ہے۔ ’اپوزیشن کے لوگوں کے بعد اب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے افراد کو مالم جبہ اور بی آر ٹی کے کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے اب حکومت نے اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے یہ آرڈیننس متعارف کروایا ہے۔‘
تاہم اشفاق تولہ نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ بڑے  صنعتکاروں کو نیب کی کارروائیوں سے درپیش  مسائل کسی حد تک ضرور کم ہوں گے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری اور کرپشن کرنے والوں پر اس ترمیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ فوٹو: پی آئی ڈی

دریں اثنا اتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ کسی کو بھی احتساب سے چھوٹ نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری اور کرپشن کرنے والوں پر اس ترمیم کا اطلاق نہیں ہوتا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی چاہے ان تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ موجودہ ترمیم پارلیمنٹ میں جانی ہے اور اگر کوئی اس میں بہتری لانا چاہتا تو حکومت اسے خوش آمدید کہے گی۔

شیئر: