Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق‘

فرشتوں کو نورانی مخلوق کہا جاتا ہے کہ ان میں خطا کا مادہ نہیں ہوتا۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
بھٹی صاحب کہتے ہیں: ’شعرمیں فرشتوں سے مراد اصل میں ’فرشتے‘ ہیں‘۔
فرشتوں سے مراد فرشتے۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی؟ ۔۔۔ ہم نے پوچھا۔
بولے: غالبؔ صاف صاف  کہہ رہے ہیں کہ بے گناہ شہری ’فرشتوں‘ کی رپورٹنگ پر دھر لیے جاتے ہیں، اس میں حیرانی کیسی؟
ہم بات کی تہہ تک پہنچے تو پوچھا ۔۔۔ ’فرشتے‘ اُس دور میں بھی تھے؟ 
جواباً وہ اُس مخصوص انداز میں مسکرائے، جسے مصاحبین خوش کُن اور مخالفین گمراہ کُن بتاتے ہیں، پھربولے : میرزا غالبؔ کے زمانے میں تو پھر بھی رو رعایت کر دیتے ہوں گے مگر آج کے فرشتے میرزا دیکھتے ہیں نہ مرغا  فوکس صرف ’فکس‘ کرنے پر ہوتا ہے۔‘
مرغا کیوں؟ 
’بانگ دیتا ہے اس لیے‘ ۔۔۔ پھر کسی قدر تصرف کے ساتھ اکبرالہٰ آبادی کا شعر پڑھا:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
’کہ مرغا بانگ دیتا ہے قسم سے اس زمانے میں‘

’قلم سے اِزاربند بھی ڈال سکتے ہیں جبکہ تلوار اس وصف سے محروم ہے‘۔ فوٹو:سوشل میڈیا

’اکبرؔ نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا‘ ۔۔۔ ہم نے ٹوکا
بولے: اگر زندہ ہوتے تو اب کہہ دیتے ۔۔۔ لمحے بھر کی خاموشی کے بعد پھر گویا ہوئے:’ تمہیں ڈائریکٹ سمجھانا پڑے گا‘۔۔۔ ذرا بتاؤ چوھدری صاحب کے ساتھ کیا ہوا؟ ۔۔۔ کیا ان کی شرافت اور صحافت کسی سے ڈھکی چھپی ہے؟ ۔۔۔ کیا وہ ’فرشتوں‘ کے لکھے پر ناحق دھر نہیں لیے گئے؟‘
ان ’مدلل سوالات‘ کے بعد ہمیں قائل ہونا پڑا۔ ماحول سنجیدہ ہو چلا تھا سو اسے ’نارمل‘ کرنے کو پوچھا: بھٹی صاحب! فی زمانہ قلم کی اہمیت زیادہ ہے یا تلوارکی؟
سوال سنتے ہی ان کے اندر کا راجپوت جاگ اُٹھا۔ انہوں نے کرسی کا ہتھا اس زور سے تھاما جیسے تلوار کا قبضہ ہو۔ ان کے رگ پٹھے پھڑکنے لگے اور وہ عالم خیال میں راجپوتانہ کے میدان جنگ میں جا اترے۔ آواز میں ایسی گونج در آئی جیسے کنویں سے بول رہے ہوں ۔۔۔ کہنے لگے:’ قلم کو تلوارپر فقط ایک ہی برتری حاصل ہے۔
کون سی؟ ۔۔۔ ہم نے مشتاقانہ پوچھا
بولے : قلم سے اِزاربند بھی ڈال سکتے ہیں جبکہ تلوار اس وصف سے محروم ہے۔ جواب سن کر ہم سناٹے میں آ گئے ۔۔۔  جب حواس بحال ہوئے تو ہنسی روکنا محال تھا۔

’معصوم ہونے کی نسبت سے بچوں اور نیک سیرت شخص کو بھی’فرشتہ‘ کہہ دیتے ہیں‘ (فوٹو:اے ایف پی)

ناگواری سے بولے: ’اس میں دانت نِکوسنے کی کون سی بات ہے؟‘
ہم نے بمشکل خود پر قابو پایا اور موضوع واپس شعر کی جانب پھیر دیا: ’بھٹی صاحب! غالبؔ کے شعر میں لفظ فرشتہ‘ آدمی اور تحریر آئے ہیں، ان کی حدود اربعہ کیا ہیں؟
سوال سُن کر چمک اٹھے، ترنت بولے: ’فرشتہ‘ فارسی لفظ ہے جو مصدر فرستادن (بھیجنا) سے نکلا ہے، یوں فرشتہ کا مطلب ہوا ’بھیجا ہوا۔‘ عربی زبان کا مَلَک (جمع ملائک) فارسی اور اردو میں ’فرشتہ‘ کہلاتا ہے۔ مثلاً ’ملک الموت‘ اردو میں ’موت کا فرشتہ‘ ہے۔ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں:
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تيرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
فرشتے نورانی مخلوق ہیں،ان میں خطا کا مادہ نہیں ہوتا، یہ معصوم ہوتے ہیں۔ معصوم ہونے کی نسبت سے بچوں اور نیک سیرت شخص کو بھی’فرشتہ‘ کہہ دیتے ہیں۔
اور یہ ’فرشتہ خاں‘ کون ہے؟ ۔۔۔ وہ دِم بھر کو رُکے تو ہم نے سوال داغا۔
بولے : یوں تو تیس مار خاں ٹائپ اور رعب داب والے آدمی کو ’فرشتہ خاں‘ کہتے ہیں، مگر کنایۃً موت کے فرشتے کو بھی ’فرشتہ خاں‘ کہہ دیتے ہیں کہ اُس کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا۔۔۔ اتنا کہہ کر ایک سوال ہماری طرف اچھال دیا: ۔۔۔ کبھی ’کرّوبی‘ کےبارے میں سنا ہے؟‘

’ردو میں ایک لفظ ہے کمرہ (room)، یہ اصل میں لاطینی زبان کا لفظ ہے، جو اول محراب دار یا گنبد نما گھر کو کہتے تھے‘ (فوٹو:سوشل میڈیا)

ہم نے نفی میں سر ہلایا تو بولے: بزرگ یا مقرب فرشتے کو’کرّوبی‘ کہتے ہیں۔ یہ اصل میں عبرانی زبان کا لفظ ’کروب‘ ہے، جس کی جمع ’کروبیم‘ ہے۔ ’کروب‘عربی میں ’کرّوبی‘ ہوگیا ہے۔ فارسی میں کرّوبی‘ کی جمع ’کروبیان‘ ہے۔
اسے آپ خواجہ میر دردؔ کے مشہور شعر میں دیکھ سکتے ہیں:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
کرّوبی جب انگریزی میں پہنچا تو cherubim ہوگیا۔ انگریزی میں انتہائی معصوم بچوں، نہایت خوبصورت خواتین اورحددرجہ ذہین شخصیات کو cherubim کہتے ہیں۔ لہجے کے اختلاف کے ساتھ یہ لفظ یورپ کی دیگر زبانوں میں بھی موجود ہے۔
ہم نے وضاحت چاہی: ’کروب سے کروبیم، کرّوبی اورکروبیاں تو سمجھ آتا ہے مگر کروب سے چرُبیم (cherubim) ہضم نہیں ہوا کہ باقی الفاظ کے برخلاف یہ آغاز میں ’چے‘ کی آوازدے رہا ہے۔
بولے: یہاں بھی صوتی تبادُل (آوازکی تبدیلی) کا قانون کارفرما ہے۔ جیسے بہت سے الفاظ حسب موقع دوسرے الفاظ سے بدل جاتے ہیں بالکل اسے ہی اکثر موقعوں اور ملکوں میں ’کاف‘ حرف ’چے‘ سے بدل جاتا ہے۔
مثلاً ؟ ہم نے پوچھا۔
مثلاً یہ کہ دودھ  انگریزی میں milk اور جرمن زبان میں milch ہے۔ اردو میں ایک لفظ ہے کمرہ (room)، یہ اصل میں لاطینی زبان کا لفظ ہے، جو اول محراب دار یا گنبد نما گھر کو کہتے تھے۔ یہی ’کمرہ‘ خاص معنی کے ساتھ انگریزی میں چیمبر (chamber) ہوگیا ہے۔ یہ تو ہوئی انگریزی اور جرمن زبان کی بات، اب فارسی میں دیکھو کہ ’مکھن‘ کو ’کرہ‘ کہتے ہیں جبکہ ایران ہی میں اس کا ایک تلفظ ’چرہ‘ بھی ہے۔

’دودھ  انگریزی میں milk اور جرمن زبان میں milch ہے‘ (فوٹو:سوشل میڈیا)

پھر کچھ سوچ کربات آگے بڑھائی : اگر اللہ توفیق دے اورعمرہ یا حج کے لیے جانا ہو تو غور کرنا ’اللہ اکبر‘ کی صداؤں میں تمہیں ’اللہ اچبر‘ کی پکار بھی سنائی دے گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شمالی ایران اور اُس سے ملحقہ ترکی اور عراقی علاقوں میں ’کاف‘ کا تلفظ ’چے‘ ہے۔ چوں کہ معنی اور مفہوم متاثر نہیں ہوتے اس لیے اور بہت سے الفاظ کی طرح اس کا تلفظ بھی روا ہے۔
مزید کون سے الفاظ  ہیں جن کا تلفظ مختلف کیا جاتا ہے؟ ۔۔۔ ہم نے بھرپوردلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
کہنے لگے: سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اسے کسی اور دن مفصل بیان کردوں گا۔ ابھی کچھ اشارہ کیے دیتا ہوں اسی سے کام چلا لو۔۔۔ پھر کھنکھار کربولے: اہل مصر حرف ’جیم‘ کا تلفظ ’گاف‘ کرتے ہیں۔ وہ ’جمال‘ کو ’گمال‘ اور’قذافی‘ کو’گدافی‘ کہتے ہیں۔ پھر مصر ہی کے ایک علاقے ’سوہاج‘ میں اس ’جیم‘ کا تلفظ ’دال‘ ہے۔ جبکہ اہل بنگال کے درمیان ’جیم‘ کا تلفظ ’ز‘ ہے یوں وہ ’جمیل‘ کو ’زمیل‘ کہتے ہیں۔
ایسے میں مشکل ان افراد کو پیش آتی ہے جن کا نام ’جلیل‘ ہے۔ اب آخری بات، قدیم زمانے ہی سے بہت سے عرب قبائل حرف ’قاف‘ کا تلفظ ’گاف‘ کرتے آئے ہیں۔ آج بھی کتنے ہی عرب ’قوم‘ کو ’گوم‘ اور ’دقیقہ‘(minute) کو ’دگیگہ‘ کہتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ’کاف‘ اور ’گاف‘ کے درمیان کی آواز ہے۔
ہم نے کہا اگر لفظ ’آدمی‘اور’تحریر‘ پر بھی روشنی ڈال دیتے تو ہم کچھ اوربھی سیکھ لیتے۔ جواباً انہوں نے حفیظ جالندھری کا شعر پڑھا اور اُٹھ کھڑے ہوئے:
وقت کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
یہ بڑی داستان ہے پیارے

شیئر: