Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیہون زیادتی کیس، تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہو سکی

واقعے کے 10 روز بعد بھی ملزم کا ڈی این اے نمونہ نہیں لیا جا سکا (فوٹو: اردو نیوز)
سندھ کے شہر سیہون میں مبینہ جنسی زیادتی کے کیس میں 10 دن گزر جانے کے بعد بھی ملزم کا ڈی این اے نمونہ نہیں لیا جا سکا جس کی وجہ سے تحقیقات میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
 سیہون کے سول جج امتیاز بھٹو پر مدعی سلمیٰ بروہی کو اپنے چیمبر میں لے جا کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے 18 جنوری کو امتیاز بھٹو کو معطل کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جامشورو کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
 
ابتدائی تحقیقات کے بعد 13 جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے کا مقدمہ 22 جنوری کو سلمیٰ بروہی کی مدعیت میں تھانہ سیہون میں سول جج کے خلاف درج کیا گیا جس میں جنسی زیادتی اور اقدام جرم کی دفعات شامل ہیں۔
عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سیہون کے ایم ایس ڈاکٹر معین الدین صدیقی کے مطابق مدعی خاتون اور ان کے لباس سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے جا چکے ہیں، تاہم جب تک پولیس ملزم امتیاز بھٹو کو لے کر نہیں آتی وہ اس کے ڈی این اے نمونے نہیں لے سکتے اور تب تک معاملے کی تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔
واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے اگلے روز 23 جنوری کو عدالتی احکامات کی روشنی میں ایس ایس پی جامشورو نے ڈی ایس پی علی خاصخیلی کی سربراہی میں معاملے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی ٹیم تشکیل دی۔
چار پولیس افسران پر مشتمل یہ ٹیم پیر سے سیہون میں ہے جہاں اس نے واقعے کی جگہ کا دورہ کر کے شواہد اکھٹے کیے اور مدعی اور گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے تاہم ملزم سول جج امتیاز بھٹو متعدد بار بلائے جانے کے باوجود ابھی تک تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔
سیہون پولیس کا کہنا ہے کہ ’چونکہ معاملے کی تحقیقات کے لیے الگ سے جے آئی ٹی قائم کی گئی ہے لہٰذا وہ سول جج کے خلاف تحقیقات اور کارروائی نہیں کر سکتے۔‘
واقعے کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد امتیاز بھٹو نے عدالت سے 10 دن کے لیے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی تھی۔
مقامی پولیس ذرائع کے مطابق اب تحقیقاتی ٹیم اور پولیس دو فروری تک کا انتظار کر رہے ہیں جب ضمانت قبل از گرفتاری کی مدت ختم ہو گی اور امتیاز بھٹو اس میں توسیع کے لیے عدالت کا رخ کریں گے۔

ہائی کورٹ نے سول جج کو معطل کر کے ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، (فوٹو: سوشل میڈیا)

واضح رہے کہ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ کی رہائشی سلمیٰ بروہی کی اس سال کے شروع میں مغیری قبیلے کے فرد سے شادی ہوئی تھی۔ پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق وہ اس شادی سے خوش نہیں تھیں اور بروہی قبیلے ہی کے نثار نامی شخص کے ساتھ ان کے دیرینہ مراسم تھے۔
شادی کے دو ہفتے بعد 12 جنوری کو سلمیٰ اور نثار شہداد کوٹ سے بھاگ کر سیہون آ گئے اور یہاں ایک گیسٹ ہاؤس میں پناہ لی۔
سلمیٰ کے شوہر نے شہداد کوٹ میں پولیس کو اس واقعے کی رپورٹ لکھوائی اور ان کے خاندان والوں نے ان دونوں کو سیہون میں ڈھونڈ نکالا جس کے بعد بات ہاتھا پائی اور لڑائی تک پہنچ گئی۔
سیہون پولیس نے سلمیٰ اور نثار کو حراست میں لے لیا۔ سلمیٰ کے شوہر نے ان دونوں پر’نکاح پر نکاح‘ کی کوشش کا الزام عائد کیا۔
اگلی صبح 13 جنوری کو دونوں ملزمان کو سول جج امتیاز بھٹو کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سلمیٰ نے پولیس کو  دیے گئے بیان میں الزام لگایا کہ  ’جج نے انہیں اپنے چیمبر میں اکیلے بلایا اور دیگر اہلکاروں کو وہاں سے چلے جانے کو کہا، جس کے بعد جج امتیاز بھٹو نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘
واقعے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے واقعے کا نوٹس لیا اور سول جج کو معطل کر کے ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔

شیئر: