Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مظاہرین کے خلاف بغاوت کی دفعات کیوں؟‘

عدالت نے آئی جی اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے احتجاجی مظاہرے سے گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آئی جی اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر کو پیر کے روز صبح 10 بجے ریکارڈ سمیت عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر سے پی ٹی ایم کے مظاہرے سے گرفتار ملزمان کے خلاف مقدمے میں بغاوت کی دفعات درج کرنے کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ ’کس قانون کے تحت بغاوت کی دفعات درج کی گئی ہیں اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے پر امن مظاہرین کو ضمانت پر رہا کیوں نہ کیا جائے؟‘
خیال رہے کہ منگل کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا جس کے دوران پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔
اس سے قبل اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ان مظاہرین کی ضمانت کی درخواست خارج کر دی تھی جس کے بعد ضامنت بعد از گرفتاری کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں درج کی گئی تھی۔
جمعے کو وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشتریات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی ذہنیت جارحانہ اور انتہا پسندانہ ہے اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی گرفتاری ان کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔

’کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے گا تو قانون عمل میں آئے گا‘ (فوٹو: فیس بک)

جمعے کو اسلام آباد میں غیر ملکی میڈیا کے ساتھ ایک سیشن کے دوران مشیر اطلاعات نے کہا تھا کہ ’ریاست کے اندر ریاست کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے گا تو قانون عمل میں آئے گا۔‘

شیئر: