Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لفظ وکیل سے موسم تک معنی کا سفر

لاہور میں وکلا نے مدعی، وکالت اور جج کے فرائض خود انجام دیے فائل فوٹو: اے ایف پی
وکیلوں نے لاہور میں اپنا مقدمہ برسرِمیدان لڑا۔ اس مقدمے میں مدعی کا فرض، وکالت کا فریضہ اور جج کے فرائض انہوں نے خود انجام دیے۔ یوں پہلی بار ہم پر’خود گِل و خود گِل کوزہ و خود کوزہ گر‘ کا مفہوم واضح ہوا نیز یہ بھی منکشف ہوا کہ جہاں عدالتی نظائر کام نہ دیں وہاں قوتِ بازو کو بطور ’دلیل‘ آزمایا جاسکتا ہے۔
لاہور میں ہوئی ہنگامہ آرائی کو کچھ لوگ’شرانگیزی‘ بتاتے ہیں۔ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑتے۔ ہمیں تو بس یہ معلوم ہے کہ ’شر‘ کو’شرارت‘سے نسبت ہے۔ اردو میں بہت شرارتی بچے کو ’شریر‘ اور ’شیطان‘ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں لفظوں کے تعلق سے جون ایلیا کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
کمسنی میں بہت ’شریر‘تھی وہ
اب تو ’شیطان‘ ہو گئی ہو گی
شیطان عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی اصل لفظ ’شطن‘ ہے جس کے معنی ’دورہونا‘ ہیں۔ بہت گہرے کنوئیں کو’بئرٌ شَطُوْنٌ‘ کہتے ہیں، وہ اس لیے کہ منڈیر سے پانی کافی دور ہوتا ہے۔ اسی طرح وطن سے دوری کو ’غُربَۃٌ شَطُوْنٌ‘ کہا جاتا ہے۔ شیطان بھی اس لیے ’شیطان‘ کہلایا کہ اُس نے اللہ کا حکم نہیں مانا اور اُس کی رحمت سے دور ہو گیا۔ پھر اس نافرمانی کی وجہ سے خود شیطان کے معنی میں ’شریررُوح، سرکش اور باغی‘ شامل ہو گئے۔ اس نسبت سے ہر سرکش کو چاہے وہ جن ہو یا انسان ’شیطان‘ کہا جاتا ہے۔اسی سلسلے میں لفظ ’شاطن‘ بھی ہے جو ’مردِ خبیث‘ کو کہتے ہیں۔
لفظ ’شیطان‘ سے اردو میں فعل اور صفت ’شیطانی‘ بنا لیا گیا ہے۔ دیکھیے کولکتہ (انڈیا) کے ’جعفرساہنی‘ کیا کہہ گئے ہیں:
چھا گئی طوفان کے ہونٹوں پہ ’شیطانی‘ ہنسی
دیکھ کر کشتی شکستہ سی بھنور کے آس پاس
کہتے ہیں کہ ’شیطان‘ نام نہیں صفت ہے۔ اس کا اصل نام ’ابلیس‘ ہے جو لفظ ’بلس‘ سے نکلا ہے۔ ’بلس‘ کے معنی ہیں مایوس ہونا، دلگیر ہونا اور حیران ہونا۔ چونکہ شیطان اللہ کی رحمت سے مایوس ہو گیا اور دلگیر رہنے لگا اس لیے اس کا نام ’ابلیس‘ ہوگیا۔ اقبال کی ایک مشہور نظم کا عنوان ہے: ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘
کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ لفظ ’شیطان‘ اور’ابلیس‘ دونوں ہی صفات ہیں۔ اصل نام ’عزازیل‘ہے۔ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر ہمارا ماننا ہے کہ کردار میں ٹیڑھ ہو تو نام’مستقیم‘ رکھنے سے بھلا نہیں ہوتا۔ 

وکیل ’توکیل‘ سے نکلا ہے یعنی جس پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم عدالت میں اپنا نائب مقرر کرتے ہیں فائل فوٹو: روئٹرز

قرآن کے مطابق ’شیطان‘ اپنی اصل کے اعتبار سے ’جِنّ‘ ہے۔ لفظ ’جِنّ‘ کا مادہ ’ج۔ن۔ن‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مادے سے بننے والے تمام الفاظ میں پوشیدگی، چھپنے اور نظرنہ آنے کا عنصر مشترک ہے۔ لفظ ’جنّ‘ ہی کو دیکھ لیں،’جنّ‘ انسانی آنکھ سے پوشیدہ رہتا ہے۔
لفظ ’جنین‘ پر غورکریں۔ جنین بھی عام انسانی آںکھ سے نظر نہیں آتا۔ ایک لفظ ’جان‘ ہے جو’روح‘ کا مترادف ہے۔ یہ ’جان‘ بھی دکھائی نہیں دیتی کہ کب جان میں جان آئی اور کب جان نکل گئی۔ مجازاً زندگی اور محبوب دونوں کو’جان‘ کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا نے ایک شعر میں ’جان‘ کو دونوں مجازی معنوں کے ساتھ برتا ہے:
جب میری جان ہوگئی ہوگی
جان حیران ہو گئی ہو گی
 لفظ ’جنت‘ پر غور کریں۔ ’جنت‘ بھی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اگر’جنّ‘ کی جمع ’جِنّات‘ ہے تواس ’جنت‘ کی جمع ’جَنّات‘ ہے۔ ایک بڑے عالم اور مؤرخ ابن جریر طبری کے مطابق جِنّ اصل میں ’جَنّات‘ کی تزئین و آرائش پر مامور ہونے کی وجہ سے ’جِنّات‘ کہلائے۔ اس کےعلاوہ ایسا باغ جو سرسبز ہونے کی وجہ سے زمین کو’ڈھانپ‘ لے عربی میں اسے بھی ’جنت‘ کہتے ہیں۔
’جنت‘ کا سب سے اعلیٰ مقام ’فردوس‘ہے جو انگریزی میں  پیراڈائز(paradise) ہوگیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لہجے اور تلفظ کے اختلاف کے ساتھ ’فردوس‘ دنیا کی قدیم و جدید بہت سی زبانوں میں موجود ہے۔

عربی میں موسم زیر کے ساتھ ’موسِم‘ بولا جاتا ہے فائل فوٹو: اے ایف پی

’وکیل‘کے ذکر نے ہمیں ’فردوس‘ تک پہنچا دیا۔ تاہم اس ساری گفتگو میں خود لفظ ’وکیل‘ کا تعارف بھول گئے۔
عربی میں کسی پر بھروسہ کرنا ’تَوکُل‘ کہلاتا ہے۔ جو کام اللہ کے بھروسے پر کیے جائیں اردو میں اسے ’اللہ توکل‘ کہتے ہیں۔ ایک اچھے شاعر رفیق راز کا کہنا ہے:
ہم فقیروں کا ’توکل‘ ہی تو سرمایہ ہے
شکوہ کس منہ سے کریں بے سروسامانی کا
اس ’توکل‘ سے ایک لفظ ’توکیل‘ہے۔عربی زبان میں کسی پر اعتماد کرکے اپنا نائب مقررکرنے کو ’اَلتَّوکِیْلُ‘ کہتے ہیں۔ پھر اسی ’توکیل‘ سے لفظ ’وکیل‘ ہے جس پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم اسے عدالت میں اپنا نائب مقرر کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض صورتوں میں یہ ’بھروسہ‘ مہنگا پڑجاتا ہے۔
جو آدمی اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے وکیل مقرر کرتا ہے اسے ’مُوَکِّل‘ کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سے ملتا جلتا ایک لفظ ’مُوَکَّل‘ بھی ہے۔ یعنی پہلے لفظ کے برخلاف اس کے ’کاف‘ پر زبر ہے اور اس کے معنی میں رکھوالا، امانت دار، مُحافظ، ذمّہ دار اور فرشتہ شامل ہے وہ فرشتہ جو کسی کام پر مقرر ہو۔ بعض نام نہاد عامل کامل’مُوَکِّل‘ قابو کرنے کے دعویٰ کرتے اور سادہ لوح لوگوں سے مال بٹورتے ہیں۔
 

جو آدمی اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے وکیل مقرر کرتا ہے اسے ’مُوَکِّل‘ کہتے ہیں۔ فوٹو:اے ایف پی

وکیلوں کا واسطہ ’عدالت‘ سے پڑتا  ہے۔ ’عدالت‘ کا تعلق ’عدل‘ سے ہے۔ دو چیزوں کے برابر ہونے اور کسی چیز کے برابر بدلہ دینے کا نام ’عدل‘ ہے۔ اپنے اس مفہوم کے ساتھ ’عدل‘ لفظ ’انصاف‘ کا مترادف ہے۔ ’عدل‘ کرنے والا ’عادل‘ کہلاتا ہے جو ’منصف‘ کا ہم معنی ہے۔ پھر برابری اور توازن کے تعلق سے لفظ ’معتدل‘ بھی ہے۔ جو موسم اور مزاج وغیرہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ شاعر ذوالفقارعادل کا کہنا ہے:
شدید تر ہے تسلسل میں ہجر کا موسم 
کبھی مِلو کہ اسے ’معتدل‘ بنایا جائے
ہمارا خیال ہے کہ اگر کسی ملاقات کے نتیجے میں موسم کی شدت پر قابو پایا جا سکتا ہے تو ضرور ملنا چاہیے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جسے ہم ’سین‘ کے زبر کے ساتھ ’موسَم‘ کہتے ہیں وہ عربی میں ’سین‘ کے زیر کے ساتھ ’موسِم‘ ہے۔ انگریزی لفظ مون سون (monsoon) کی اصل یہی ’موسم‘ ہے مگر ’مون سون‘ موسمِ برسات کے ساتھ خاص ہے یہ کسی اور موسم کے لیے نہیں بولا جاتا۔
عربی میں ’موسم‘ کے درج ذیل معنی ہیں:
(1) لوگوں کا بڑا مجمع ( 2 ) سالانہ میلا ( 3 ) تہوار ( 4 ) کسی پھل کی فصل کا وقت( 5 ) کسی کام کا وقت یا زمانہ، جیسے شکار کا زمانہ، حج کا زمانہ۔
اپنے ان معنوں کے ساتھ ’موسم‘ انگریزی لفظ سیزن (season) کا ہم معنی ہے جبکہ انگریزی ویدھر (weather) کے لیے عربی میں ’الجو، الھوائ اور طقس سمیت بہت سے الفاظ آئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی ’موسم‘ اردو زبان میں seasonاورweather دونوں معنوں میں برتا جاتا ہے۔ فی الحال موسم سرما جاری ہے اس سے پہلے کہ موسم بدلے رُت گدرائے ایک شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
موڈ ہو جیسا ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: