Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں گائے کو کھانے والے شیر کو بھی مار دیا جائے گا؟

انڈیا میں شیر کا شکار بھی قابلِ سزا جُرم ہے، فوٹو: وکی پیڈیا
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ کے مطابق مغربی ساحلی ریاست گوا کے ایک رکن اسمبلی نے کہا ہے کہ ’گائے کھانے کے لیے شیروں کو بھی انسانوں کی طرح سزا دی جانی چاہیے۔
یہ باتیں بدھ کے روز این سی پی کے ایم ایل اے چرچل الیماؤ نے شیروں کے مارے جانے پر غور و خوض کے دوران اسمبلی میں کہی۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ایک شیرنی اور اس کے تین بچوں کو مہادیئی وائلڈ لائف پناہ گاہ میں مقامی لوگوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
اس کے متعلق حزب اختلاف کے رہنما دیگامبر کامت نے اسمبلی میں شیروں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی تھی۔
الیماؤ نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی شیر گائے کو کھائے تو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ جب ایک انسان گائے کھاتا ہے تو اسے سزا دی جاتی ہے۔‘
 
انھوں نے مزید کہا کہ ’جہاں تک جنگلی جانوروں کا تعلق ہے تو شیروں کی اہمیت ہے لیکن جہاں انسانوں کا تعلق ہے وہاں گائے مقدم ہے۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل انڈیا میں گائے کے نام پر کئی لوگوں کو ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں سے کئی کی موت واقع ہو گئی ہے۔ مرنے والے زیادہ تر مسلمان یا دلت یعنی پسماندہ ہندو سماج سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔
این سی پی کے ایم ایل اے نے مزید کہا کہ ’اس پورے معاملے میں انسانی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

الیماؤ نے سوال اٹھایا کہ ’کوئی شیر گائے کو کھائے تو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ فوٹو: ٹوئٹر

توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے کہا کہ ’مقامی لوگوں نے شیروں کو اس لیے مار ڈالا کہ انھوں نے ان کے مویشیوں پر حملہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جن کسانوں کے مویشی شیروں کے حملے میں مر گئے ہیں انھیں تین چار روز میں معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کی ٹویٹ پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ہم دیکھیں گے نامی ایک صارف نے پوچھا کہ ’بی جے پی کے ان رہنماؤں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی گوشت (بیف) برآمد کرنے والی کمپنیاں ہیں؟'
ونٹیج سول نامی صارف نے لکھا کہ ’کہیں انھوں نے بی جے پی پر طنز کرنے کے لیے تو ایسی باتیں نہیں کہیں؟
خیال رہے کہ انڈیا میں شیروں کے شکار پر پابندی ہے اور یہ قابل سزا جرم ہے تاہم اس کے باوجود آئے روز ملک میں شیروں کی ہلاکت کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔

شیئر: