Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لال مسجد کے باہر پولیس، داخلہ محدود

انتظامیہ کہتی ہے کہ مولانا عبدالعزیز زبردستی مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
اسلام آباد میں انتظامیہ کی جانب سے لال مسجد کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کرتے ہوئے مسجد کے اندر داخلے کو محدود کر دیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ ’کسی سرکاری مسجد پر کسی کو قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ سرکاری مسجد میں سرکاری امام ہی ہوگا اور مولانا عبد العزیز کو کسی صورت بھی انتظامی امور چلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
حمزہ شفقات نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لال مسجد کو سیل نہیں کہا گیا صرف پولیس نے اس کا محاصرہ کر رکھا اور کوئی بھی شخص مسجد کے اندر نماز ادا کرنے کے لیے جا سکتا ہے۔‘
مولانا عبدالعزیز اور اسلام آباد انتظامیہ کی درمیان صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب مولانا عبدالعزیز کے بھتیجے ہارون الرشید کو مسجد کی نائب خطیب کی رہائش گاہ خالی کروانے کے لیے نوٹس بھیجا گیا۔
لال مسجد کے انتظامی امور چلانے والی شہدا فاونڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام کا کہنا ہے کہ ’مولانا عبدالعزیز اپنے بھتیجے مولانا ہارون الرشید کے ہمراہ مسجد میں موجود ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر لال مسجد کے انتظامی امور زبردستی اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں۔‘
ان کے مطابق شہدا فاؤنڈیشن والوں کو زبردستی مسجد سے بے دخل کرنے کے خلاف تھانہ آبپارہ میں مولانا عبدالعزیز کے خلاف مقدمہ بھی درج کرایا گیا ہے۔
دوسری جانب مسجد کے اندر موجود مولانا عبد العزیز نے اردو نیوز سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’لال مسجد کے اندر ان کے ہمراہ 300 سے زائد طلبا اور طالبات موجود ہیں جن میں اکثریت طالبات کی ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جامعہ حفصہ کو عرصہ دراز سے تعمیر نہیں کیا گیا، اس کی تعمیر کی اجازت ان کو دی جائے۔

نمازی مسجد کے باہر نماز پڑھ رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

شہدا فاونڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام کے مطابق اسلام آباد انتطامیہ ایچ 11 میں جامعہ حفصہ کے لیے مختص جگہ کا قبضہ چھڑوانا چاہتی تھی اس دوران طالبات لال مسجد میں جمع ہونا شروع ہوگئیں جس کے بعد انتظامیہ نے ایچ 11 میں جامعہ حفصہ کے لیے مختص کردہ پلاٹ اور لال مسجد کا محاصرہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ لال مسجد میں 2007 کے آپریشن کے بعد حکومت اور لال مسجد انتظامیہ کے درمیان جامعہ حفصہ کے لیے جگہ مختص کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے تحت جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے ایچ 11 میں جگہ مختص کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے  جامعہ حفصہ کو تعمیر کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی تاہم عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومتی جائیداد پر تعمیر ہونے والے مدرسے کے انتظامی امور حکومت کے پاس ہی رہیں گے۔

شیئر: