Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مولانا کی بات کو یاد کرتا ہوں تو رونا آ جاتا ہے‘

اتوار کو مولانا دھرنے کے شرکا سے بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
اتوار کی شب جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دھرنے سے خطاب میں پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان تو کیا لیکن آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی بیان نہیں کی۔
اس سے پہلے مولانا نے جمعے کو کافی جارحانہ انداز اپنایا تھا۔ جس میں انہوں نے حکومت اور اداروں کو دو دن کی مہلت دیتے ہوئے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کے خطاب کے بعد لگ رہا تھا کہ دھرنے میں شریک کارکنان کے جذبے اب مانند پڑ چکے ہوں گے لیکن پیر کو کشمیر ہائی وے پر دھرنے کے شرکا کے چہرے پہلے سے زیادہ ترو تازہ نظر آرہے تھے اور وہ معمول کے مطابق اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
لیکن بلوچستان کے ضلعے چاغی سے آئے 60 سالہ حافظ عبدالشکور اپنے ساتھیوں کے ساتھ افسردہ بیٹھے دکھائی دیے۔ ان کی افسردگی کی وجہ مولانا کی حکمت عملی میں تبدیلی نہیں بلکہ اپنے خطاب کے دوران کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آبدیدہ ہونا تھا۔

دھرنے کے شرکا مولانا کے اگلے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ فوٹو: روئٹرز

جب ان سے پوچھا بابا جی کچھ افسردہ نظر آرہے ہیں تو آہ بھرتے ہوئے کہنے لگے ’مولانا کی تقریر نے افسردہ کر دیا۔ اب بھی ان کی بات یاد کرتا ہوں تو رونا آجاتا ہے۔‘  
پوچھا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے تو کہنے لگے ’دیکھا نہیں آپ نے مولانا صاحب کل ہمارے لیے رو رہے تھے۔‘ یہی وہ محبت ہے جس کی وجہ سے ہم آج یہاں موجود ہیں اور جو ان کا حکم ہوگا اس کی تعمیل کریں گے۔ عمر تو زیادہ ہے لیکن ہمارا جذبہ ابھی جوان ہے۔‘
جب ان سے پوچھا کہ مولانا صاحب نے تو ڈی چوک نہ جانے کا اعلان کیا ہے تو فوراً سے بولے ’ڈی چوک کیا کریں گے وہ جگہ چھوٹی ہے ہمارا قافلہ تو بہت بڑا ہے۔ اتنے لوگ وہاں نہیں جا سکتے۔‘
ساتھ میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ڈی چوک دیکھا تو نہیں ہے لیکن ساتھیوں نے یہی بتایا ہے کہ وہ جگہ اتنے بڑے قافلے کے لیے کم پڑ جائے گی۔
آگے چل کر دیکھا تو کچھ نوجوان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ یہ خیمہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے آئے کارکنوں کا تھا۔ یہاں موجود رشید نے مولانا کے خطاب کے بارے میں کہا کہ ’اب ہماری قیادت پلان بی اور سی پر سوچ بچار کر رہی ہے۔‘

دھرنے میں پورے پاکستان سے کارکن شامل ہیں۔ فوٹو: روئٹرز

ان سے پوچھا کہ پلان بی اور سی ہے کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا یہاں پر آنا اور دھرنا دینا یہ پلان اے تھا۔ پلان بی میں یہ شامل ہے کہ ڈی چوک کی طرف آگے بڑھنا ہے اور پلان سی اس احتجاج کو ملک بھر تک پھیلانا ہے اور ہر ضلعے میں شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال کرنا ہے۔‘
اس دوران کنٹینر سے اعلانات بھی ہو رہے تھے جس میں کہا جارہا تھا کہ ’کارکنان میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو نہ دیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی انٹرویو کے لیے آتا ہے تو انہیں مرکزی کنٹینر میں موجود قیادت سے بات کرنے کا کہیں۔‘
ابھی ہماری گفتگو جاری ہی تھی تو ایک کارکن نے رشید کو روکا کہ ’تم انٹرویو کیوں دے رہے ہو؟‘
رشید نے کہا کہ ’ہم ویسے ہی گپ شپ لگا رہے ہیں کوئی متنازعے بات تو کر نہیں رہے اور پھر انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے، پلان بی اور سی پر مزید وضاحت کی۔‘
آگے بڑھے تو چارسدہ سے آئے ماجد سے ملاقات ہوئی۔
ماجد نے مولانا کے گذشتہ شپ کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘مولانا اب حکمت سے کام لے رہے ہیں۔ ہمارے اور باقی جماعتوں کے دھرنوں میں فرق ہے۔ اگر ہم بھی ڈی چوک کی طرف نکل پڑے تو کیا فرق رہے گا؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملکی معاشی صورتحال ایسی نہیں کہ کوئی انتہائی قدم اٹھایا جائے۔
ماجد نے یہ بھی گلہ کیا کہ ’ہمارے ساتھ دیگر جماعتوں کے کارکن بڑی تعداد میں شامل نہیں ہوئے‘۔ اور پھر خود کو تسلی دیتے ہوئے بولے ’شاید مسلم لیگ ن کے کارکنان اپنی نوکریوں میں مصروف ہوں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: