Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایم ڈی سی تحلیل کرنے کا آرڈیننس کالعدم

پاکستان میڈیکل کمیشن میں نو ممبران کو لگایا جانا تھا جن کی نامزدگی وزیراعظم نے کرنا تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) تحلیل کرنے کے صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا ہے۔
ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ایم ڈی سی کے ملازمین کو بحال کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔
عدالت نے پی ایم ڈی سی کے تحلیل کرنے اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے میڈیکل کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تمام ملازمین کو بحال کرنے کا فیصلہ سنایا۔
پی ایم ڈی سی کے سابق رجسٹرار بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر حفیظ الدین ودیگر افسران نے پی ایم ڈی سی تحلیل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ پی ایم ڈی سی کے سابق ملازمین نے کونسل کی تحلیل کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

 

منگل کو عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد آٹھ جنوری کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
 وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا تھا  کہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہے لہذا عدالت کو حکم جاری کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
پی ایم ڈی سی کے سابق ملازمین کے وکیل کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق میں عدالتوں کو احتیاط نہیں فیصلہ کرنا چاہیے۔
 جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا تھا کہ کیا عدالت پارلیمان کو کوئی ہدایت جاری کرسکتی ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ عدالت ہدایت جاری نہیں کرسکتی لیکن آرڈیننس چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا تھا کہ بل پارلیمنٹ کے سامنے ہے اور یہ معاملہ فوری نوعیت کا نہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

پی ایم ڈی سی کے سابق ملازمین نے کونسل کی تحلیل کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ گزشتہ سال 21 اکتوبر کو پاکستان میں ڈاکٹروں اور صحت کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کر دیا گیا تھا۔
میڈیکل کالجز اور ڈاکٹرز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس متعارف کیا گیا تھا جس سے ادارے کی مکمل تشکیل نو کی گئی۔
پاکستان میڈیکل کمیشن میں نیا کیا تھا؟
پاکستان میڈیکل کمیشن میں نو ممبران کو لگایا جانا تھا جن کی نامزدگی وزیراعظم نے کرنا تھی۔
کمیشن میں تین ممبران کا تعلق سول سوسائٹی، تین کا میڈیکل شعبے اور ایک ممبر کا تعلق ڈینٹل کے شعبے سے ہونا تھا۔
اس سے پہلے پی ایم ڈی سی کے پچاس فیصد ممبران الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر آتے تھے اور دیگر کو نامزد کیا جاتا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ملازمین کی بحالی کا فیصلہ سنایا۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈینٹل اور میڈیکل سے تعلق رکھنے والے ممبران کے لیے 20 سال کا تجربہ لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آرمڈ فورسز میڈیکل سروس کے سرجن جنرل اور صدر کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان بھی کمیشن کے ممبران میں شامل کیے جانے تھے۔ کمیشن کی مدت تین سال مقرر کی گئی تھی۔
نئے قانون کے تحت لائسنس کی تجدید سمیت تمام اختیارات کمیشن کو دے دیے گئے تھے۔
صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کے تمام ملازمین کو چھ ماہ کی اضافی تنخواہ دے کر برطرف کر دیا گیا تھا ، تاہم آرڈیننس میں کہا گیا تھا  کہ کمیشن کے لیے نئی بھرتیوں کے عمل میں نکالے گئے ملازمین کو ترجیح دی جائے گی۔ 
کمیشن کے قائم ہونے کے بعد میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ سے پہلے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ لیا جانا لازم قرار دیا تھا جس  کا اطلاق 2019 میں میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے والے طلبہ سے کیا گیا۔
اس سے قبل میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے صرف انٹری ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔
میڈیکل کالج کے طلبا پر لازم قرار دیا تھا کہ  ڈگری مکمل کرنے کے بعد لائسنس حاصل کرنے کے لیے ’نیشنل لائسنسنگ ٹیسٹ‘ دیں گے جس کے بعد ہاؤس جاب کے لیے وہ اہل ہوں گے۔ ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد فل لائسنس حاصل کرنے کے لیے دوبارہ امتحان دینا ہوگا جس کے بعد پریکٹس کی اجازت ہوگی۔
 

شیئر: