Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امارات کی پہلی بیلے ڈانسر سے ملیے

النیادی کا کہناہے ممکن ہے اپنے اس شوق سے دستبردار بھی ہوجاﺅں۔فوٹو: امارات الیوم
متحدہ عرب امارات کی پہلی بیلے ڈانسر علیا النیادی نے اعتراف کیا ’بیلے ڈانس نے میری زندگی بدل دی ہے‘۔
الامارات الیوم کے مطابق النیادی کا کہنا ہے’ بیلے ڈانس نے زندگی کے مختلف پہلوﺅں پر بڑا اثر ڈالا۔ بیلے ڈانس کے شوق پر لوگوں سے کڑوی باتیں بھی سننے کو ملیں‘۔ 
’لوگ سخت سست کہتے رہے اور میں اپنا کام کرتی رہی۔ ممکن ہے کہ کبھی اپنے اس شوق سے دستبردار بھی ہوجاﺅں‘۔
 علیا النیادی نے کہا ’ بیلے ڈانس کی بدولت میں خود کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے لگی ہوں۔ میری صحت کے لیے کیا مناسب ہے اور کن کاموں سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے اس کا مجھے احساس ہوچکا ہے‘۔

علیا النیادی نے اعتراف کیا ’بیلے ڈانس نے میری زندگی بدل دی ہے‘۔فوٹو: امارات الیوم

 النیادی جنہوں نے بیلے ڈانس میں نام پیدا کیا ہے کہا ’ کبھی کبھار بیلے ڈانس سے کنارہ کشی کے بارے میں سوچنے لگتی ہوں‘۔
عام طور پر خواتین تیس برس میں بیلے ڈانس کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔ بیلے ڈانس منفرد نوعیت کا چیلنج ہے۔ اس کے تقاضے جسمانی اعتبار سے پورے کرنا آسان نہیں ہے۔
النیادی کا کہنا تھا’ہمیشہ یہ بات کہتی ہوں کہ بیلے ڈانس سے میرا تعلق کئی وجہ سے ہے۔ اس کا اپنا ایک پیغام ہے۔ اس کے ملبوسات اور اس کی موسیقی مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے‘۔

بیلے ڈانسر کا کہنا تھا’ یوکرین کی تھیٹر ٹیم کے ساتھ شو میں شرکت زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ تھا۔فوٹو: امارات الیوم

 بیلے ڈانس کے ذریعے میں اپنے شعور اور واجدان کا اظہار کرتی ہوں۔ گھر والوں اور دوستوں نے یہ شوق جاری رکھنے میں میری بہت مدد کی ہے‘۔
بیلے ڈانسر کا کہنا تھا’ یوکرین کی تھیٹر ٹیم کے ساتھ شو میں شرکت زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ تھا۔خوش قسمتی سے میری ملاقات معروف فنکاروں سے ہوئی‘۔
النیادی نے جو ابوظبی اور العین ریاستوںمیں تمیثیلی فن کے نمائندہ پروگرام کی رابطہ کار بھی ہیں بتایا ’ عربی طرز کا بیلے ڈانس پیش کیا جاسکتا ہے یہ بعید از امکان نہیں ہے۔ ڈانس پر کسی بھی قوم یا کسی ریاست کی اجارہ داری نہیں ہے‘۔
 

شیئر: