Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بمباری، بھوک اور بچے: مشرقِ وسطیٰ میں جنگوں کے سائے میں مائیں

جنگیں چاہے کہیں بھی ہوں، ان کا سب سے بھاری بوجھ اکثر ماؤں کے حصے میں آتا ہے۔ وہ غم، بھوک اور خوف کے درمیان زندگی گزارتی ہیں اور اسی دوران اپنے بچوں کو اس تشدد سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں جس نے خاندانوں اور معاشروں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
غزہ کی پٹی سے لے کر شام کے ساحلی علاقوں تک، تنازعات کی نوعیت، اسباب اور فریق مختلف ہیں لیکن انسانی قیمت ایک جیسی ہے: بمباری، جبری نقل مکانی اور بنیادی سہولیات کے انہدام کے ماحول میں بچوں کی پرورش کرنے والی عورتوں کی اذیت۔
لندن کی سٹی سینٹ جارجز یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر عائشہ احمد کہتی ہیں کہ ’جب ہم تنازع کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تشدد میدان جنگ تک محدود نہیں رہتا۔ یہ ان گھروں تک جا پہنچتا ہے جہاں کھانا ختم ہو جاتا ہے اور ان خیموں تک جہاں بچے سردی اور غذا کے بغیر سوتے ہیں۔‘
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ماؤں کا غم ضمنی نقصان نہیں ہوتا، یہ جنگ کی دیرپا بازگشت کا مرکز ہوتا ہے۔‘
یہ بازگشت خاص طور پر فلسطین کی غزہ پٹی میں شدت کے ساتھ سنائی دیتی ہے جہاں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہزاروں خاندان کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں، کم از کم نو ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، اور جنگ سے متعلق زخموں کے باعث 42 ہزار سے زائد افراد معذور ہو چکے ہیں۔
ہر عدد کے پیچھے ایک ماں ہے جو کسی نہ کسی نقصان کے ساتھ جینے کی کوشش کر رہی ہے۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں دنیا بھر میں ایک ویڈیو گردش کرتی رہی تھی جس میں ایک فلسطینی ماں اپنے ننھے بچے کی بے جان لاش کو بانہوں میں تھامے، خون آلود کفن میں لپٹے ہوئے اسے آہستہ آہستہ جھولا دے رہی تھی۔
دسمبر 2023 کی اس ویڈیو میں وہ روتے ہوئے اپنی ماں سے کہتی ہے کہ ’خدا کی قسم یماں (ماں)، اسے پانے کے لیے میں نے بہت تکلیفیں سہیں۔۔۔میں نے 580 ہیپرین کے انجیکشن لگوائے تھے۔‘ وہ ان خون پتلا کرنے والے ٹیکوں کا ذکر کر رہی تھی جو بعض اوقات بانجھ پن کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔
غزہ میں فضائی حملوں سے بچ جانے والوں کے لیے بھی خطرات ختم نہیں ہوتے۔ صاف پانی، خوراک اور طبی سامان کی قلت کے باعث بیماریاں، موسم کی شدت اور بھوک بدستور جانیں لے رہی ہیں۔
یہ بحران حاملہ اور نومولود بچوں کی ماؤں کو بھی نہیں بخش سکا۔
اسرائیلی ناکہ بندی کے کئی مہینوں نے غذائی عدم تحفظ کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ ماں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت شدید خطرے میں گھر  گئی ہے، اگرچہ 10 اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد محدود انسانی امداد کی آمد شروع ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی کمیونیکیشن مینیجر ٹیس انگریم نے نو دسمبر کو غزہ سے بتایا کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین میں شدید بھوک ایک کم معروف مگر نہایت سنگین خطرہ ہے جس کے ’تباہ کن ڈومینو اثرات‘ ہزاروں نوزائیدہ بچوں تک پہنچتے ہیں۔
ان کے مطابق کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے مرنے کا خطرہ معمول کے وزن والے بچوں کے مقابلے میں تقریباً 20 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
جو خواتین حاملہ نہیں بھی ہیں ان کے لیے بھی بقا روزانہ کی جدوجہد ہے۔
وسطی غزہ میں رہنے والی فنکارہ اور چار بچوں کی ماں، میسا یوسف کہتی ہیں کہ موجودہ جنگ نے ایسے مسائل پیدا کیے ہیں جو انہوں نے پچھلے کسی تنازع میں نہیں دیکھے تھے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم دو سال یا اس سے زیادہ عرصے تک بجلی کے بغیر رہے ہوں۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے ہمیں بالکل بجلی نہیں ملی۔ ہمارے پاس واشنگ مشین، فریج اور دوسرے آلات ہیں مگر سب بے کار پڑے ہیں۔‘
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے روزمرہ کے کام گھنٹوں کی مشقت مانگتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں گھریلو کاموں کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے پڑتے ہیں۔ موبائل فون چارج کرنے کے لیے یا تو شمسی توانائی درکار ہوتی ہے یا کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا پڑتا ہے جو چارج کر دے،اس کے ساتھ ہی کوئی روشنی بھی ہو تاکہ بچے اندھیرے کے بعد اپنا ہوم ورک کر سکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بچوں کے کپڑے ہاتھ سے دھونے پڑتے ہیں۔ جو تھوڑی سی خوراک بڑی مشکل سے گھنٹوں کی تلاش کے بعد ملتی ہے، چاہے ایک وقت کا کھانا ہو، روٹی کا ایک ٹکڑا یا کچھ اور اسے محفوظ رکھنے کے طریقے سوچنے پڑتے ہیں۔
’اگر روٹی نہ ملے تو خود بنانی پڑتی ہے، آٹا ہاتھ سے گوندھنا اور عارضی آگ پر پکانا۔ ہمیں ایک روٹی پکانے کے لیے اپنے گھر کے کمروں کے دروازے توڑنے پڑے، کپڑے جلانے پڑے، حتیٰ کہ میرا آرٹ کا سامان بھی جلا دیا۔
’یہ مستقل جدوجہد ہے، ہر وقت حل سوچتے رہنا، چوبیس گھنٹے ذہنی دباؤ میں رہنا۔ ذہن تھک جاتا ہے کیونکہ ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے اور وقت کبھی آپ کے حق میں نہیں ہوتا۔‘
میسا یوسف بتاتی ہیں کہ وہ فجر سے پہلے اٹھ جاتی ہیں اور بغیر وقفے کے دوپہر کے بعد تک کام کرتی رہتی ہیں، ایک طرف گھریلو ذمہ داریاں، دوسری طرف بچوں کی دیکھ بھال اور آرٹ ورکشاپس کا انعقاد۔
تاہم یہ کٹھن معمول بھی اس صدمے کے سامنے چھوٹا پڑ جاتا ہے جو بہت سی خواتین نے سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جھیلا، جب اسرائیل نے حماس کی قیادت میں ہونے والے فلسطینی حملے کے جواب میں اپنی کارروائی شروع کی۔
میسا یوسف کے مطابق جیسے جیسے اسرائیلی فورسز محلوں میں داخل ہوئیں، بعض رہائشیوں کو زبردستی نکال دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انخلا کے دوران کچھ خواتین کو حراست میں لے لیا گیا اور انہیں اپنے بچوں، حتیٰ کہ نومولود بچوں کو بھی پیچھے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ تھیں۔ بعض کے ہاتھوں میں چند ماہ کے شیر خوار بچے تھے۔ انہیں کہا گیا، ’بچے کو سڑک پر رکھ دو اور ہمارے ساتھ آؤ‘،اور پھر انہیں قیدی بنا لیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوچیے، ایک ماں کی نفسیاتی حالت کیا ہوگی، جب اس کا بچہ چند ماہ کا ہو یا اس کے چار پانچ بچے ہوں، اور پھر بھی اسے مجبور کیا جائے کہ انہیں سڑک پر چھوڑ دے جبکہ فوج اسے کسی نامعلوم جیل میں لے جا رہی ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ اپریل 2024 میں رفح میں زمینی کارروائی کے دوران خاندانوں کو انخلا کے لیے بمشکل ایک گھنٹہ دیا گیا۔ بعد میں بچ جانے والوں نے بتایا کہ لوگ ننگے پاؤں بھاگے اور اپنا سامان پیچھے چھوڑ دیا۔
یوسف کے بقول ’ایک ماں نے کہا، ’میں بچوں کے ساتھ بھاگ رہی تھی کہ سپاہیوں نے ہم پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جیسے تفریح کے لیے۔‘ اس کے کچھ بچے گولی لگنے سے گر پڑے۔ وہ انہیں اٹھا نہ سکی اور بھاگتی رہی۔
’اس نے کہا، ’اگر ہم نہ نکلتے تو سب مارے جاتے یا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔‘ وہ اپنے زخمی بچے کو وہیں چھوڑ کر دوڑتی رہی۔‘
ماؤں کے اسی طرح کے حالات شام میں بھی عام ہیں، جہاں 14 سالہ جنگ اور حالیہ فرقہ وارانہ تشدد نے ہزاروں خاندانوں کو اپنے بچوں کے غم میں مبتلا کر دیا ہے۔
مارچ میں حملہ آوروں کی بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک ساحلی گاؤں میں ایک بوڑھی ماں اپنے دو بیٹوں اور ایک پوتے کی لاشوں کے پاس کھڑی دکھائی دیتی ہے جو مبینہ طور پر فرقہ وارانہ حملوں میں مارے گئے تھے۔
مقامی طور پر ام ایمن کے نام سے شناخت ہونے والی اس خاتون کے سامنے مسلح افراد نے انہیں گالیاں دیں اور اس کی برادری پر غداری کا الزام لگایا۔ ایک شخص نے طنزیہ انداز میں کہا کہ وہ اپنے بیٹوں کو اٹھا لے اور کہا کہ ’تم (علوی) غدار ہو۔‘
انہوں نے جواب دیا کہ ’فشرت (بکواس)، ہم نے غداری نہیں کی‘ اور پھر اپنے بیٹوں کے لیے خدا سے بدلہ لینے کی دعا کی۔
حقوق کی تنظیموں کے مطابق ام ایمن چار دن تک لاشوں کی حفاظت کرتی رہیں جو ان کے گھر کے پیچھے پڑی تھیں، یہاں تک کہ وہ انہیں دفنانے کے قابل ہو سکیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ام ایمن کا تعلق قبوع العوامیہ سے ہے، جو لاذقیہ اور جبلة کے درمیان واقع ہے۔ ان کے بیٹے کنان اور سہیل غریب کسان تھے۔ سہیل ایک استاد اور مترجم بھی تھے۔ کنان ایک سابق فوجی تھے، انہوں نے آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک مفاہمتی مرکز میں رپورٹ کیا تھا اور شہری حیثیت بحال کر لی تھی۔
ان کی ہلاکتیں شام کے ساحلی علاقوں اور قریبی وسطی خطوں میں بدلے کی کارروائیوں کے دوران ہوئیں جو معزول حکومت کے حامیوں اور سرکاری فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد سامنے آئیں۔ یہ تشدد دسمبر میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کے بدترین واقعات میں سے ایک تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق مارچ کے ان قتل عام میں تقریباً 1,400 افراد مارے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اگست میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ شام کی علوی اقلیت، جو آبادی کا لگ بھگ 10 فیصد ہے، بدستور منظم حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔
آٹھ دسمبر کو ایک اور واقعے میں لاذقیہ کی ایک ماں نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں اپنے بیٹے کے قتل کے مناظر دیکھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس شام مسلح افراد  الیہودیہ محلے میں گاڑیاں گھما رہے تھے اور بشارالاسد کے زوال کی سالگرہ کے موقع پر ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔
جب نوجوان مراد محمد مہریز اپنے کیفے کی نوکری سے گھر لوٹ رہا تھا تو مسلح افراد نے اسے روکا اور اس کے مسلک کے بارے میں پوچھا۔ اس کے علوی ہونے کا جواب سنتے ہی انہوں نے اس کے سینے پر گولیاں چلا دیں۔
علاقے کے لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔
اس کی تدفین کے موقع پر سوگواروں نے اس کی ماں کی آواز ریکارڈ کی جو کہہ رہی تھیں کہ ’دروازہ بند کر دو، مراد۔۔۔ اب بہت خون بہہ چکا ہے‘، اور وہ خونریزی کے خاتمے کی دعا کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ان کا بیٹا فرقہ وارانہ تشدد کا آخری شکار ہو۔
جنگی صدمے پر تحقیق کرنے والی محقق عائشہ احمد کہتی ہیں کہ ان تمام نقصانات کے باوجود، تنازع زدہ علاقوں میں مائیں اپنے بچوں کے لیے استحکام فراہم کرتی رہتی ہیں۔ 
ان کے مطابق ’جنگ میں ماں ہونا ایک پناہ گاہ ہے۔ یہ عورتیں بغیر ہسپتال کے معالج بن جاتی ہیں، بغیر اسکول کے استاد۔۔۔ اپنے بچوں کے لیے ان کی لوریاں مزاحمت کے خاموش اعمال ہوتی ہیں۔‘
اگرچہ غزہ، شام، سوڈان اور یمن کے تنازعات کو عموماً جغرافیائی سیاست کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے تاہم عائشہ احمد کے بقول ان کا انسانی اثر حیرت انگیز طور پر ایک جیسا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ  ’جب آپ مختلف جنگی علاقوں کی ماؤں کی باتیں سنتے ہیں تو تفصیلات بدل جاتی ہیں مگر خوف اور غم نہیں۔ وہ ایسے حالات میں اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں جن کا سامنا کسی والدین کو نہیں کرنا چاہیے۔‘
 

شیئر: