Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہمارے معاملات اتنے خراب ہیں کہ جہاز تک چوری ہو گیا‘

پاکستان کی سپریم کورٹ میں قومی ایئر لائن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد ملک کی تعیناتی کے کیس میں پی آئی اے اور حکومت نے رپورٹس جمع کرا دی ہیں، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومت دونوں رپورٹس ایک ہی بندے نے بنائی ہیں۔
بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ جمع کرائی گئی رپورٹ میں صرف ایم ڈی کی تعریفیں کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں صرف ایئر مارشل ارشد ملک کی تعریفیں کی گئی ہیں، سمجھ نہیں آ رہی تھی تعریفیں ختم کہاں جا کر ہوں گی۔ ’رپورٹس سے لگتا ہے ایک ہی بندے نے بنائی ہیں، صرف کاپی پیسٹ سے ہی کام چل رہا ہے۔‘
ایم ڈی ارشد ملک کے وکیل نعیم بخاری نے بینچ کو بتایا کہ رپورٹ تیار کرتے وقت ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔
 
وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں صرف پانچ افسران ایئرفورس سے آئے ہیں، اور ارشد ملک کے پاس ایوی ایشن کا بھرپور تجربہ ہے، وہ جے ایف تھنڈر کی تیاری کا بھی حصہ رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ارشد ملک کو نئے ایم ڈی کی تعیناتی تک عارضی چارج دیا گیا تھا، کیا قانون کے مطابق نئے ایم ڈی کی تعیناتی ہو گئی ہے؟
وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ بورڈ نے حکومتی نامزدگی پر ارشد ملک کو ایم ڈی لگایا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ایم ڈی کی تعیناتی کے لیے عالمی سطح پر اشتہار دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں تعیناتی کا پورا طریقہ بتایا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں بہت تجربے ہو چکے ہیں، ایک جرمن سربراہ لگایا وہ جہاز ہی ساتھ لے گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابق ایم ڈی جو جہاز ساتھ لے گیا تھا اس کا کیا بنا؟ جس کمپنی کا جہاز چوری ہوجائے وہ کیا بہتر کام کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کی عدالت میں فوجداری کیس درج کرانا چاہیے تھا۔
پی آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ نیب تحیقات کر رہا ہے اور کچھ رقم واپس ملی ہے۔
چیف جسٹس نے پی آئی اے حکام کو دو دن کی مہلت دی اور کہا کہ بتائیں جہاز واپس کیوں نہیں لایا گیا۔

شیئر: