Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ میں چھوہاروں کا سوکھتا کاروبار؟

پاکستان کے صوبہ سندھ میں تیار ہونے والا چھوہارا غذائیت اور توانائی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی شہرت سرحد پار بھی ہے اور یہ کھجور سے کہیں زیادہ منافع بخش ہے۔
یہ چھوہارا ان کاشتکاروں کے لیے ایک سہارا بھی ہے جن کے باغات کی کھجوریں پکنے سے پہلے بارش اور آندھیوں کی نذر ہو کر خراب ہو جاتی ہیں۔
ایسے کاشتکار کچی کھجوروں جنہیں ’ڈوکا‘ کہا جاتا ہے کو درختوں سے اتار کر پانی میں ابال اور دھوپ میں سکھا کر چھوہارے کی شکل دیتے ہیں اور پھر اس کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ سرحد پار انڈیا بھی بھیجتے ہیں۔ 
انڈیا سندھ کے چھوہارے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ 
لیکن گذشتہ ایک سال سے سندھی چھوہارے کے پاکستانی تاجر انتہائی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ انڈیا نے فروری 2019 سے پاکستان کے ساتھ تمام تجارتی راہداریاں بند کر رکھی ہیں۔
انڈیا میں چھوہارے کو مندروں میں پوجا کے وقت بطور پرساد کھانے کے لیے بانٹا جاتا ہے اور منتیں پوری کرنے کی غرض سے دریائے گنگا سمیت دیگر ندیوں میں بہایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی ہمیشہ مانگ رہتی ہے۔
 سندھ کے شہروں خیرپور اور سکھر میں قائم دو کھجور منڈیوں کے سینکڑوں تاجر ہر سال لاکھوں بوریاں چھوہارے انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال اور دیگر ممالک کو برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ پاکستان لاتے ہیں۔ تاہم انڈیا کی جانب سے تجارت پر پابندی عائد کرنے کے بعد یہ تاجر مالی مسائل میں مبتلا ہیں۔
سکھر میں قائم آغا قادرداد کھجور منڈی کے جنرل سیکریٹری کھیم چند نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ انڈیا کی جانب سے تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد چھوہاروں کی برآمد ایک خسارے کا سودا بن گیا ہے۔

انڈیا سندھ کے چھوہارے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ 

پاکستان سے چھوہارے پہلے واہگہ اور براستہ کراچی بھارت بھیجے جاتے تھے۔ ان راستوں سے چھوارے بھیجنے پر پاکستانی روپے میں فی کلو خرچہ 25 روپے آتا تھا۔ اب دوبئی کے راستے مال بھیج رہے ہیں۔ دوبئی سے خرچہ امریکی ڈالر میں 41 سینٹ آتا ہے۔ جو بھارتی روپے میں ڈیڑھ سو بنتے ہیں اور پاکستانی روپے میں یہی خرچہ ساڑھے تین سو روپے تک ہوجاتا ہے۔ یہ خرچہ ہمیں وارا نہیں کھاتا۔ ہمیں بہت نقصان ہوتا ہے۔ ہماری پوری مارکیٹ تباہ ہوگئی ہے۔‘
کھیم چند نے بتایا کہ اس بحران کی وجہ سے علاقے کے کاشتکار بھی تباہ حالی کا شکار ہیں۔
’کاشتکار مالی اعتبار سے ختم ہوگئے ہیں اور کھجور کے درخت کاٹنے کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم بہت پریشان ہوچکے ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ اگلے سال چھوہارا بکے گا بھی کہ نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ بارڈر کھل جائے، دونوں ملکوں کے تعلقات پھر اچھے ہوجائیں اور چھوارے کی تجارت جیسے پہلے ہوتی تھی اسی طرح سے بحال ہوجائے۔‘
خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں قائم ’ڈیٹ پام رسرچ انسٹیٹیوٹ‘ کے دستاویز کے مطابق علاقے میں لگ بھگ 70 ہزار ہیکٹرز پر کھجور کے تناور درخت موجود ہیں۔ جن سے سالانہ چار لاکھ ٹن سے زائد تازہ کھجور اور چھوہارے کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ جو کہ کھجور کی کل ملکی پیداوار کا 75 فیصد ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، ملتان، لیہ، مظفر گڑھ، تربت، پنجگور سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی کھجور کے درخت پائے جاتے ہیں۔ تاہم صوبہ سندھ کے خیرپور اور سکھر ضلعوں کی کھجور اور چھوہارے ذیادہ مشہور ہیں۔
کھیم چند نے بتایا کہ چھوارے کو 70 کلو وزن کی بوریوں میں پیک کیا جاتا ہے اور اندازے کے مطابق 30 لاکھ بوریاں بھارت بھیجی جاتی تھیں۔
’میرا خیال ہے کہ ہمارے 85 فیصد چھوارے بھارت میں کھائے جاتے ہیں۔ باقی 15 فیصد مقامی سطح اور دیگر ملکوں میں کھایا جاتا ہے۔‘

سندھ کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی ھی کھجور کے درخت پائے جاتے ہیں۔

کھیم چند کا دعویٰ ہے کہ مقامی کاشتکاروں کو چھوہارے کے تاجر کاشتکاری کے لیے جو رقوم بطور ایڈوانس دیتے ہیں اس سال ان رقوم کا پچاس فیصد اب تک وصول ہو نہیں سکا ہے۔
’اندازے کے مطابق خیرپور اور سکھر کی کھجور منڈیوں کے تاجروں نے کاشتکاروں کو ایک سو کروڑ روپے بطور ایڈوانس دیئے تھے۔‘
سکھر کی کھجور مارکیٹ کے ایک اور تاجر راج کمار ودھوانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات جب خراب ہوئے تو پاکستان کی لگ بھگ تین سے چار لاکھ بوریاں جو کہ براستہ واہگہ بھارت جانی تھیں وہ ساری واپس آ گئیں۔
’ہمیں بہت مالی نقصان ہوا ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں اور وزیر تجارت سے اپیل کرتے ہیں کہ دوسرے ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ چھوہارے کی تجارت شروع کرنے کی خاطر خیرپور اور سکھر کی منڈیوں کے تاجروں کے وفود بھیجے جائیں۔

’انڈیا نے فروری 2019 سے پاکستان کے ساتھ تمام تجارتی راہداریاں بند کر رکھی ہیں۔‘

راج کمار نے ادائیگیوں میں ہونے والی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری رقوم انڈیا سے دبئی جاتی ہیں وہاں سے ہمارے پاس آتی ہیں۔ جس سے ہمیں پریشانی رہتی ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ ہماری رقوم کبھی کسی اور کے بنک اکاؤنٹ میں منتقل ہوجاتی ہیں اور ایسی کسی وجہ سے ہماری رقم ڈوب بھی جاتی ہے۔ جبکہ کئی تاجروں کی رقوم پھنسی ہوئی ہیں۔‘
’تاجروں نے کاشتکاروں کو پیشگی ایڈوانس دینا بند کردیا ہے۔ تاجروں کے پاس پیسہ نہیں ہے تو کاشتکاروں کو کہاں سے ایڈوانس رقوم دیں؟ تاجروں کی ایڈوانس میں دی گئی رقوم اب بھی کاشتکاروں کی طرف واجب الادا ہیں۔ ہم کاشتکاروں کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے وہ کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ماضی میں ہم انہیں چھ آٹھ ماہ پہلے رقوم ایڈوانس میں دیتے تھے۔ اس سال ہمیں رقوم واپس نہیں ملیں۔ اس لیے تاجر مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہیں۔‘

شیئر: