Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آج سعودی خواتین بھی آزادیوں کا جشن منا رہی ہیں‘

سعودی خواتین نے موٹاپے کے عالمی دن پر سائیکل ریس میں حصہ لیا۔ فوٹو اے ایف پی
سعودی عرب میں حالیہ برسوں کے دوران خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں اور ان کو وہ آزادیاں دی گئیں جو اس سے قبل انہیں کبھی حاصل نہیں تھیں۔
29 سالہ اسیل بالخیور نے اس حوالے سے عرب نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے سعودی خواتین کو وہ آزادیاں دی ہیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔
’عالمی یوم خواتین کے موقعے پر سعودی خواتین نئی ملنے والی آزادیوں کا جشن منا رہی ہیں، وہ آزادی جو ہمیں جینے کا حق دیتی ہے۔‘
کچھ عرصہ پہلے تک سعودی خواتین کے لیے زندگی مشکلات اور مایوسی سے کم نہیں تھی۔
خواتین کو دوسرے درجے کا شہری تصور کرتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں مرد سرپرست پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اپنے بل بوتے پر آزادانہ طور پر کچھ بھی حاصل کرنا خاتون کے لیے ناممکن تھا۔
ایک بالغ خاتون مرد کی اجازت کے بغیر نہ تو سفر کر سکتی تھی اور نہ ہی پاسپورٹ حاصل کر سکتی تھی۔ سعودی خواتین کی مجبوری تھی کہ وہ ان سماجی اصولوں پر عمل پیرا ہوں جو قدامت پسند عناصر نے پورے معاشرے پر لاگو کیے ہوئے تھے۔
آہستہ آہستہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے خواتین کو خود مختار کرنے کی راہ ہموار کی۔
اگست 2019 میں شاہ سلمان نے شاہی فرمان جاری کیا کہ سعودی خواتین کو سفر کرنے یا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے مرد سرپرست کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

بالغ خاتون مرد کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ نہیں حاصل کر سکتی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

شاہ سلمان کا یہ فرمان سعودی خواتین کی زندگی میں انقلابی لمحہ تھا، بے شک دنیا کے لیے یہ بہت چھوٹی بات تھی۔
اس فرمان سے کچھ عرصہ پہلے ہی 2018 میں سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔
سعودی فرمانروا کی جانب سے دی گئی ان آزادیوں کے بعد سے خواتین ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
ایک اور خاتون بلقیس فاحد نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے شاہی فرمان کا جاری ہونا ان کے لیے انتہائی جذباتی لمحہ تھا۔
شاہی فرمان کا سنتے ہی بلقیس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔
بلقیس تین بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کی وفات اس وقت ہوئی جب وہ تیسرے بچے کی ماں بننے والی تھیں۔

2019 میں پہلی مرتبہ خواتین کو سوک اوکاظ میلے میں شرکت کی اجازت ملی۔ فوٹو: اے ایف پی

شوہر کی وفات کے بعد بلقیس اور ان کے بچوں کی ذمہ داری شوہر کے بھائی کو سونپ دی گئی تھی۔
بلقیس کے مطابق ’یہ بہت مشکل وقت تھا۔ ہمیں ان کے معیار کے مطابق رہنا تھا۔ میرے بچوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں تھی۔ بچوں کے سکول کے انتخاب سے لے کر سفر سے متعلق فیصلہ کرنا، تمام ان پر منحصر تھا۔‘
ڈاکٹر میسا امر کی زندگی میں شاہی فرمان سے ملنے والی آزادایوں سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی، لیکن وہ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ دیگر خواتین کی زندگیوں پر بہت سے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
’ذاتی طور پر میری زندگی پر زیادہ اثر نہیں پڑا کیونکہ میرے والد نے تقریباً سب کچھ کرنے کی اجازت دی۔ لیکن میں ان تمام خواتین کے لیے خوش ہوں جن کو وہ آزادی حاصل نہیں تھی جو مجھے تھی اور اب انہیں آزادی کا لطف اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔‘
سعودی عرب کی نوجوان نسل سنہری دور میں رہ رہی ہے، ایسے وقت میں جب وہ اپنی محنت اور قابلیت پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں اور ان کی صنف مستقبل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔

شیئر: