Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت آخر چاہتی کیا ہے!

اب تو کئی ہفتے پہلے سے ہی اس مارچ سے جڑی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
جب سے پروفیشنل لائف میں باقاعدہ قدم رکھا ہے تب سے کئی آٹھ مارچ آئے اور کئی گئے۔ خواتین کےعالمی دن پر دفتر میں چھوٹی موٹی سی تقریب ہو جایا کرتی تھی، ہم خواتین کے لیے مینجمنٹ کی طرف سے گلدستہ یا کارڈ پیش کیا جاتا تھا اور سب کو اکھٹا کر کے ایک نمائشی سی تقریر کر دی جاتی تھی۔
اکثر مرد کولیگز آٹھ مارچ کے دن مذاقاً حسرت سے آہیں بھرتے تھے کہ کاش کوئی دن ہمارا بھی ہوتا جب ہمارے ساتھ بھی ایسا خصوصی سلوک کیا جاتا۔
آٹھ مارچ کے منائے جانے پر کبھی کوئی سنجیدہ اعتراض نہ دیکھا نہ سنا کیونکہ معلوم تھا کہ ایک بے ضرر اور رسمی سا دن ہی تو ہے جسے منا کر خواتین مطمئین ہیں تو بس ٹھیک ہے۔
البتہ گذشتہ تین سال سے عورت مارچ کے بعد، آٹھ مارچ کے دن میں گویا ایک جان سی پڑ گئی ہے۔ اب تو کئی ہفتے پہلے سے ہی اس مارچ سے جڑی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ عورت مارچ منعقد کرنے والوں کی چونکہ سوشل میڈیا کے محاذ پر خاص توجہ ہے اس لیے وہ آٹھ مارچ سے پہلے ہی اچھا خاصا شور مچا لیتے ہیں۔
اس بار تو لیکن کمال ہی ہوگیا۔ گذشتہ ایک ہفتے سے عورت مارچ سے منسوب ایک نعرے ’میرا جسم میری مرضی‘ نے ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ صرف اسی ایک نعرے کی بدولت اب گلی گلی عورت مارچ کے چرچے ہیں۔ جہاں جائیں اسی کے بارے میں گفتگو  ہو رہی ہے، یہاں تک کہ سیاسی پریس کانفرنس ہو یا سینیٹ کا ایوان، تین سالوں بعد پہلی بار اس مارچ کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
جس توجہ کا خواہشمند عورت مارچ اور اس کے منتظمین تھے اب وہ مکمل طور پر  انہیں مل چکی ہے۔ اور حسب توقع شدید گالم گلوچ بھی۔۔۔ پیپلز پارٹی اس کی مکمل حمایت کر چکی ہے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز میں سے بھی خواتین اس میں شمولیت کر رہی ہیں۔
اب چونکہ بقول مجموعی ایک قوم کے ہمارا فوکس اس ایشو  پر ہو ہی چکا ہے اور مرد مجموعی طور پر یہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر آج کی عورت چاہتی کیا ہے تو سوچا کیوں نہ خواتین کے حقوق اور مطالبات کے بارے میں جو غلط فمہیاں ہیں وہ دور کر لی جائیں۔ اس تحریر کو آپ ’کریش کورس فار ڈمیز‘ بھی کہہ سکتے ہی۔

خواتین اور کچھ نہیں برابری کے حقوق مانگتی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ  کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ خواتین جب اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں تو وہ مردوں کے حقوق میں سے کچھ چھیننا چاہتی ہیں۔ پتا نہیں یہ خوف کیسے، کب اور کیونکر لاحق ہوا کیونکہ یقین کیجیے خواتین ایسا ہرگز ہرگز نہیں چاہتیں۔ وہ تو بطور ایک انسان اپنی زندگی اور اپنے وجود پر خود اپنے اختیار کی بات کرتی ہیں۔
وہ اختیار جو انہیں مذہب اور ملک کا آئین دونوں دیتے ہیں لیکن معاشرے روایات اور رسموں نے دھیرے دھیرے وہ اختیار سلب کر لیے ہیں۔ عورت چاہتی ہے کہ فقط وہ غصب شدہ حقوق اسے لوٹا دیے جائیں۔
ایک اور بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ جب خواتین برابری کا لفظ استعمال کرتی ہیں تو وہ گویا ہر سطح پر  مردوں سے جسمانی برابری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 
آج اس لفظ برابری کی بھی مکمل طور پر تعریف کر دینا چاہتی ہوں۔ جب برابری کی بات ہوتی ہے تو بات ہوتی ہے ’برابر مواقع کی‘۔۔۔ یعنی کہ ایک بیٹی کو پیدائش سے پہلے ہی مار نہ دیا جائے، اس کے پیدا ہونے پر بھی اتنی ہی خوشی منائی جائےجو کہ بیٹے کے پیدا ہونے پر۔ بیٹی کو بھی اپنی مرضی کی تعلیم، چاہے وہ ملک میں ہو یا ملک سےباہر، حاصل کرنے کا حق ہو، پسند کی شادی کرنے کا اختیار ہو، جائیداد میں ترکہ ملے۔

ایسا ماحول ہو کہ خواتین اپنے کریئر آگے بڑھا سکیں (فوٹو: اردو نیوز)

شادی کے بعد بھی اپنی منشا سے کام کرنے یا نہ کرنے کی آزادی ہو، خاوند کے ساتھ فیصلوں میں شراکت داری ہو۔ کیا ایک خاتون بچہ پیدا کرنے کے لیے ذہنی یا جسمانی طور پر تیار ہے یا  نہیں اس فیصلے پر مکمل طور پر اس عورت کا ہی اختیار ہو۔
اولاد پیدا کرنے کے بعد جب وہ کام پر واپس آئے تو اس کے لیے ایسا ماحول ہو کہ وہ دوبارہ اپنے کریئر کو وہیں سے آگے بڑھا سکے۔ 
چند شعبوں کے علاوہ، مرد اور عورت کے درمیان تنخواہوں کے معاملے میں جو غیر متوازن روش ہے اس میں بھی عورت برابری کی خواہاں ہے۔ ہالی ووڈ میں بھی اب اس پر بحث شروع ہوگئی ہے جہاں بعض چوٹی کے مرد اداکاروں نے شرط رکھ دی ہے کہ وہ اسی فلم میں کام کریں گے جہاں فلم کی ہیروئین اور ان کا معاوضہ یکساں ہوگا۔
شاید آپ میں سے کافی لوگ جب برابری کی اس تعریف کو پڑھیں تو انہیں لگے کہ چونکہ وہ یہ سب حقوق اپنے اپنے گھروں میں خواتین کو دے رہے ہیں تو شاید ان کے تقاضے کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔
پتا نہیں یہ عورتیں آخر اور مزید کیا چاہتی ہیں۔ ذرا سوچیے، اگر آپ کے گھر میں روٹی ہے اور آپ کبھی بھوکے نہیں سوتے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہو چکا ہے؟

بطور انسان ایک عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہمارے ملک میں  لفظ ’فیمینزم‘ کی تعریف سے متعلق بھی ہے۔ کسی نے سوشل میڈیا پر مجھے کہا کہ میں تو تمہیں ایک اچھی عورت سمجھ رہا  تھا لیکن تم تو فیمینسٹ نکلی۔
سچ پوچھیں تو میں اس  جملے سے بہت محظوظ ہوئی۔ نہ جانے ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اس لفظ سے اتنا خوفزدہ کیوں ہیں۔ غالبا ان کا خیال ہے کہ فیمنسٹ خواتین خود کو مردوں سے برتر سمجھتی ہیں، وہ مردوں کی ہتک کر کے یا انہیں نیچا دکھا کر تسکین حاصل کرتی ہیں یا وہ سوچتی ہیں کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے مرد کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایسی سوچ رکھنے والے سب خواتین و حضرات کے لیے عرض ہےکہ ہر وہ انسان چاہے وہ خاتون ہوں یا مرد (جی ہاں مرد بھی فیمینسٹ ہو سکتے ہیں) فیمنسٹ ہوتے ہیں جو اس بات پر یقین رکھے کہ بطور انسان ایک عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں۔
وہی حقوق جن کا میں تفصیلا اوپر ذکر کر چکی ہوں۔ فیمنزم میں کسی جنس کی کمتری یا برتری کا تصور نہیں ہوتا۔ میں یہ بات فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ نہ صرف میں بلکہ اس تعریف کی روشنی میں میرے خاوند اور والد صاحب دونوں خود کو فیمینسٹ کہتے اور سمجھتے ہیں۔ امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد بعض لوگ آج کے بعد اس لفظ کو اپنے لیے گالی نہیں سمجھیں گے۔

امید ہے آج کی اس ’فیمینزم کلاس‘ کے بعد بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئی ہوں گی (فوٹو: ٹوئٹر)

ایک اور غلط فہمی ہے کہ جب عورت اپنے لیے آزادی کا مطالبہ کرتی ہے تو وہ یہ چاہتی ہے کہ اس پر کوئی روک ٹوک نہ ہو، وہ جو چاہے کرے، مادر پدر آزاد طریقے سے استلذاذ کرے یا اپنے جسم کی نمائش کرتی پھرے اور جس کے ساتھ جب چاہے بغیر شادی کے بچہ پیدا کرے۔
یہ بات آپ کو حیران کن لگے یا شاید نہ لگے لیکن آزادی کے بارے میں گفتگو کے دوران ایسے بہت سے بے تکے سوالوں کاسامنا مجھے خود کرنا پڑا ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے عرض کر دوں کے آزادی کا لفظ عورتوں کی ڈکشنری میں ’خودمختاری‘ ہے نہ کہ عریانیت، فحاشی یا شہوانیت کے۔
ویسے تو ہر ڈکشنری میں ہی اس کا مطلب خودمختاری ہی ہے لیکن اپنے کچھ بھائی بہنوں کے آزادی کے رد عمل پر ضروری سمجھا کہ اس کی بھی وضاحت کر دی جائے تاکہ کنفیوژن ختم ہو۔ اس ملک کا ایک آئین ہے جس کا اطلاق مرد اور عورتوں دونوں پر ہوتا ہے۔ آزادی کا مطالبہ کرنے والی خواتین  بھی ظاہرہے ملک کے قوانین  اور آئین کے تابع ہی رہیں گی، آزاد ہو کر شترِ بے مہار نہیں ہو جائیں گی۔ 

ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ ہو رہا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

آپ عورت مارچ کی حمایت کریں یا اسے موم بتی آنٹیوں کا پراپگینڈہ سمجھیں  یہ بات تو طے ہے کہ خواتین کے مطالبات حقیقی، سنجیدہ اور فوری حل طلب ہیں۔
اس بات سے انکار  نہیں کہ پچھلی جنریشن کے مقابلے میں اب مردوں کے رویوں میں بھی کافی بہتری آئی ہے، معاشرہ کے مخصوص  طبقہ میں شعور بیدار ہو رہا ہے زیادہ سے زیادہ لوگ  خواتین کے حقوق کی بات کر بھی رہے ہیں مگر ابھی کافی سفر باقی ہے ۔
امید ہے آج کی اس ’فیمینزم کلاس‘ کے بعد بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئی ہوں گی اور آئندہ بات صرف دلیل  پر ہوگی، الفاظ اور جذبات پر نہیں۔۔۔۔ ہیپی ویمنز ڈے ٹو آل!

شیئر: