Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہیومر اور ریومر!

انڈیا میں پچاس سے زائد کورونا وائرس کے کیس سامنے آئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
کورونا وائرس کی مہربانی سے انڈیا میں آج کل ’ہیومر‘ اور ’ریومر‘ دونوں وائرل ہو رہے ہیں لیکن لوگ سہمے ہوئے بھلے ہی ہوں ان کا ’سینس آف ہیومر‘ محفوظ ہے۔
مشہور شاعر بشیر بدر کا یہ تیس سال پرانا شعر بھی وائرل ہو رہا ہے: کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے، یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو!
لگتا ہے جیسے بشیر بدر نے کورونا وائرس کی ٹیگ لائن لکھ ڈالی ہو۔
لوگ ہاتھ ملانے سے بچ رہے ہیں، عادتاً مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں اور پھر اچانک واپس کھینچ لیتے ہیں کیونکہ ماہرین فاصلے سے ہی ملنے کا مشورہ جو دے رہے ہیں۔
ہندوستانی معاشرے میں پہلے ہی بہت فاصلے تھے، جو بچی کھچی کسر تھی وہ کورونا وائرس نے پوری کر دی ہے۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ انڈیا کو ایک نہیں دو مہلک وائرسز کا سامنا ہے، ایک کورونا اور دوسرا ’کاؤ‘ رونا یا سادہ الفاظ میں گائے کی سیاست۔
دلی میں بڑی کمپنیاں ہر صبح ملازمین کے داخلے سے پہلے ان کی مانیٹرنگ کر رہی ہیں۔ جدید ترین آلات سے لوگوں کا باڈی ٹمپریچریچر ناپا جا رہا ہے کیونکہ بخار کورونا وائرس کی پہلی علامت ہے، بخار ہو تو 14 دن کے لیے گھر میں ہی محدود رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
لیکن ملازمین کو تو آپ جانتے ہی ہیں، بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یار عارضی طور پر جسم کا درجہ حرارت کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟

انڈین رہنما نے چین کو کورونا وائرس کی مورتی بنوانے کا مشورہ دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ہولی کے لیے سکولوں کی چار دن کی چھٹی ہوئی تو ایک سکول نے یہ نوٹس جاری کر دیا کہ جو لوگ چھٹیوں میں سنگاپور، کوریا، چین یا اٹلی کا سفر کرکے لوٹے ہوں، وہ 14 دن تک سکول نہ آئیں۔ ملازمین کہہ رہے ہیں کہ چھٹی کا اچھا موقع ہے، ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھی سستے ہیں، چار دن کے لیے چلتے ہیں اور پھر دو ہفتے گھر پر آرام کریں گے۔
ایک اخبار میں کارٹون چھپا ہے جس میں کچھ نقاب پوش ایک بینک میں داخل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب وہ بینک کے ملازمین سے تجوری خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں تو سب سکون کی سانس لیتے ہیں۔ ’ارے یہ تو صرف ڈاکو ہیں، ہم تو سمجھے تھے کہ کورونا وائرس کے مریض آ گئے ہیں‘
لوگ ہنس بھلے ہی رہے ہوں لیکن گھبرائے ہوئے بھی ہیں اور جب لوگ ڈرے ہوئے ہوں تو ہر طرح کا دیسی علاج اور ٹوٹکے آزمانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تو وٹس ایپ پر کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے اتنے طریقے گردش کر رہے ہیں کہ ایک میڈیکل سٹور کھولا جا سکتا ہے۔
کسی کا دعویٰ ہے کہ لہسن، پیاز اور ادرک استعمال کرنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ صرف گرم پانی پیجیے، گرمی اور گرم پانی میں وائرس زندہ نہیں رہ پاتے۔ اور دنیا بھر کے سائنس دان بلاوجہ پریشان ہو رہے ہیں۔ لہسن پیاز ادرک کا ایک پیسٹ بنائیں، ساتھ میں ایک دو بوٹی بھی ڈال دیں، جن لوگوں کو دوائی کے طور پر استعمال کرنا ہے وہ دوائی سمجھ کر کھائیں، ورنہ قورما تو ہے ہی۔

دلی میں کمپنیاں ہر صبح ملازمین کی مانیٹرنگ کرتی ہیں  (فوٹو: اے ایف پی)

بھائی، ذرا سوچیے، علاج اتنا آسان ہوتا تو لائنیں ہسپتالوں کے باہر نہیں مغلئی کھانوں کی دکانوں کے باہر لگی ہوئی ہوتیں۔
الکوحل سے بننے والے ہینڈ واش یا سینی ٹائزر دکانوں سے غائب ہوگئے ہیں کیونکہ ماہرین کا مشورہ ہے کہ بار بار صابن اور پانی سے یا ہینڈ واش سے ہاتھ صاف کریں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ الکوحل سے صرف ہاتھ صاف کرنے کا کیا فائدہ؟ جو وائرس اندر ہیں، انہیں کیسے ختم کیا جائے۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ دوا اور دارو کا فرق ختم ہوگیا ہے۔ دونوں بظاہر ایک ہی کام کر رہی ہیں۔
اور پھر ہمیشہ کی طرح وہ سب تو ہے ہی جس پر کچھ لوگ آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہیں۔ شمال مشرقی ریاست آسام کی قانون ساز اسمبلی میں حکمراں بی جے پی کی ایک رکن نے کہا کہ گائے کے پیشاب اور گوبر میں جراثیم کش خوبیاں ہوتی ہیں، اس لیے اسے کورونا وائرس کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بہن، آپ کے مذہبی عقائد کا تو ہم احترام کرتے ہیں لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ چین میں گائے نہیں ہوتیں؟
ایک ہندو مذہبی رہنما کا مشورہ ہے کہ چین کو کورونا وائرس کی مورتی بنوا کر اس سے اپنے گناہوں کی تلافی کرنی چاہیے۔ سوامی چکرپانی کا دعویٰ ہے کہ اگر چین میں گوشت کھانے والے تمام لوگ مورتی کے سامنے گوشت چھوڑنے کا عہد کر لیں تو کورونا کا غصہ ٹھنڈا ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق جو لوگ بھگوانوں کی پوجا کرتے ہیں اور گائے کے تحفظ میں یقین رکھتے ہیں، انہیں کورونا وائرس سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سر آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ’کاؤ رونا‘ وائرس کی گرفت میں ہیں اور فی الحال اس بیماری کا علاج بھی دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ 

انڈیا میں کورونا سے بچاؤ کے لیے لہسن، پیاز استعمال کرنے کا کہا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اترپردیش کے وزیراعلیٰ آدیہ ناتھ کا خیال ہے کہ اگر ذہنی انتشار پر قابو پا لیا جائے تو بلڈ پریشر، ذیابیطس، گردوں اور پھیپڑوں کی بیماریوں اور یہاں تک کہ کورونا وائرس سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہیں کون سمجھائے کہ لاکھوں لوگوں کو سٹریس دینے میں وہ بھی کافی بڑا یوگدان دیتے ہیں، اگر حکمت کے بجائے وہ حکومت پر توجہ دیں تو کورونا وائرس کی تو کوئی گارنٹی نہیں ہے لیکن ان کی ریاست میں لوگوں کی بہت سی دوسری پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اگر وہ بیماریوں کا علاج بھی خود ہی کریں گے تو بے چارے ڈاکٹروں کا روزگار کیسے چلے گا، انھیں ذہنی پریشانی ہوگی تو۔۔۔۔
لیکن آپ جو چاہیں کھائیں اور جو چاہیں پئیں، آپ کو کرنا کیا چاہیے؟
بھیڑ سے دور رہیں، چھینکتے اور کھانستے وقت منہ اور ناک کو ٹشو پیپر سے ڈھکیں، ٹشو نہ ہو تو کہنی موڑ کر منہ کو ڈھکیں تاکہ جراثیم نہ پھیلیں، اگر کوئی چھینک رہا ہو تو اس شخص سے کم سے کم ایک میٹر دور رہیں اور اگر آپ کو شبہ ہو کہ آپ اس وائرس کی زد میں آ گئے ہیں تو گھر پر ہی رہیں اور ہیلپ لائن پر فون کریں، ٹہلتے ہوئے ڈاکٹر کے یہاں نہ پہنچ جائیں۔
اور ہاں، ہاتھ بار بار دھونا نہ بھولیں۔ اس میں آپ کی بھی خیر ہے اور آپ سے ہاتھ ملانے والوں کی بھی! 
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: