Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوگوئی کی پارلیمان کے لیے نامزدگی پر تنازع

گوگوئی نے کہا کہ ’پہلے میں حلف لے لوں پھر میڈیا سے بات کروں گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں سپریم کورٹ کے سابق جج رنجن گوگوئی ایک بار پھر تنازعات میں گھرے ہیں اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
نیا تنازع بابری مسجد یا رفائیل دفاعی سودے پر فیصلے کا نہیں بلکہ ان کے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے ایوان بالا یعنی راجیا سبھا میں بطور رکن نامزد ہونے پر شور مچا اور اب لوگ انڈیا کی عدلیہ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
انڈیا کے اخبار دی ٹیلیگراف کے 17 مارچ کے آن لائن ایڈیشن کا ایک تراشہ سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے جو اپنے الفاظ میں بہت دلچسپ اور وضاحتی ہے۔
اخبار نے شہ سرخی لگائی ہے کہ ’یہ کووڈ نے نہیں کووند نے کیا۔‘

 

خیال رہے کہ رام ناتھ کووند انڈیا کے صدر ہیں جنھوں نے سابق جج کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا ہے جبکہ کووڈ، کرونا وائرس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
رنجن گوگوئی کے پہلے نام رنجن کو مخفف کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آر سے رفائیل میگا سکیم کو نظر انداز کرنا۔ اے سے ایودھیا (یعنی بابری مسجد رام مندر فیصلہ) بیچنا۔ این سے نو ایس آئی ٹی کنہیا معاملے میں یعنی انڈیا کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار پر مخصوص جانچ کمیٹی قائم نہ کرنا۔ جے سے جج لویا کا مقدمہ بند کرنا۔ اے سے آرٹیکل 370 کو ہٹانا۔ اور آخر میں این سے اپنے خلاف لگنے والے جنسی زیادتیوں کے الزامات پر جانچ نہ ہونے دینا لکھا ہے۔ اس کا اختتام اخبار نے ’گوگوئی گون‘ پر کیا یے۔
اس مخفف اور اس کی تشریح سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رنجن گوگوئی کا جج کے طور پر دور بہت متنازع رہا۔

رام ناتھ کووند انڈیا کے صدر ہیں جنھوں نے سابق جج کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا ہے جبکہ کووڈ، کرونا وائرس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

گوگوئی کے ساتھ ڈیتھ آف ججمنٹ، جسٹس گوگوئی وغیرہ کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔
انڈیا میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے جسٹس گوگوئی کی نامزدگی پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے عدالت پر لوگوں کے اعتماد کو زک پہنچی ہے۔
مجسلس اتحاد المسلمین کے رہنما اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی سے جب پوچھا گیا کہ سابق جج کی نامزدگی پر ہنگامہ کیوں ہے تو انھوں نے کہا کہ ایک بینچ میں خود رنجن گوگوئی نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تقرری نہیں ہونی چاہیے۔ اسدالدین اویسی نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ گوگوئی اسے قبول نہیں کریں گے اور اگر قبول کر لیتے ہیں تو اس پر مزید ہنگامہ ہوگا۔
واضح رہے کہ پارلیمان کے لیے کوئی بھی نامزدگی بغیر مشاورت کے نہیں ہوتی۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس گوگوئی نے کہا کہ پارلیمان میں ان کی موجودگی سے عدلیہ کے نظریات مقننہ اور مقننہ کے خیالات عدلیہ تک پہنچیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’پہلے میں حلف لے لوں پھر میڈیا سے بات کروں گا۔‘
بہرحال سوشل میڈیا پر جہاں جسٹس گوگوئی کے متنازع فیصلوں کا ذکر زور شور سے ہو رہا ہے وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انھیں حکومت نے ان کی وفاداری کا انعام دیا ہے۔

شیئر: