Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈیا میں فسادات کورونا وائرس کا ہمارا ورژن ہے‘

اروندھتی رائے نے کہا کہ حملے کی شروعات ’جے شری رام’ کے نعرے سے ہوئی۔ فوٹو: اےا یف پی
انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں مظاہرے کے معروف مقام جنتر منتر پر ملک بھر سے مصنفین، فنکار اور شاعر ملک میں جمہوریت پر منڈلاتے خطرے کے پیش نظر یکجا تھے۔
اتوار کو جمع ہونے والے مصنفین اور شعرا کا کہنا تھا کہ 'ملک کا مصنف، آرٹسٹ اور معاشرہ بے چین ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر لوگ اس وقت ہار گئے تو ادب اور فنون اپنے وجود کا مقصد کھو دیں گے۔‘
مظاہرے کے مقام پر اکٹھے ہونے والے فنکاروں میں معروف مصنفہ اور بُکر انعام یافتہ اروندھتی رائے کے علاوہ سچیتانندن، گیتا ہریہرن، سنجے کاک، گوہر رضا، اشوک واجپئی، وشنو ناگر، منگلیش ڈببرال اور دیگر شامل تھے۔
اروندھتی رائے نے انڈیا میں جمہوریت کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت ختم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے انڈیا کی موجودہ صورتحال کو کورونا وائرس سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم بیمار ہیں۔‘
اروندھتی رائے نے دہلی کے فسادات پر ردعمل میں کہا کہ ’جہاں ہم آج یکجا ہیں وہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر مزدور طبقے کے مسلمانوں کی کالونیوں پر چار دن قبل فسطائی ہجوم نے حکمراں جماعت کے رہنماؤں کی شعلہ بیان تقاریر، پولیس کی حمایت اور شمولیت، دن رات الیکٹرانک میڈیا کی بڑی تعداد کی حمایت اور اس بات سے مطمئن کہ عدالت ان کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کرے گی، سے حوصلہ پا کر خونی حملہ کیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ حملے کے خطرات چند دنوں سے سر پر منڈلا رہے تھے اس لیے لوگ قدرے تیار تھے اور اپنا دفاع کر سکے۔ ’بازار، دکانیں، گھر، مساجد، گاڑیاں جلا دی گئیں۔ سڑکیں پتھروں اور ملبے سے بھری پڑی ہیں، ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہیں۔ مردہ خانے لاشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ہندو مسلم دونوں مرے ہیں جس میں ایک پولیس والا اور ایک انٹلی جنس بیورو کا جوان بھی شامل ہے۔ لیکن جہاں دونوں اطراف سے خوفزدہ کرنے والی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا وہیں ہمت اور مہربانیوں کا بھی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘

دہلی میں جنتر منتر کے مقام پر امن ریلی نکالی گئی۔ فوٹو: ٹوئٹر

اروندھتی رائے نے کہا کہ ’لیکن کوئی اس سچ کو جھٹلا نہیں سکتا کہ فسادیوں نے حملہ ’جے شری رام’ کے نعرے کے ساتھ شروع کیا جسے اس فسطائی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ انھوں نے کہا کہ اسے ہندو مسلم فساد کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ فسطائیوں اور غیر فسطائیوں میں جاری جنگ کا مظہر تھا جس میں مسلمان فسطائیوں کے صف اول کے دشمن ہیں۔
خیال رہے کہ جنتر منتر پر مصنفین شہریت کے متنازع قانون سی اے اے، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے یکجا ہوئے تھے۔
اروندھتی رائے نے کہا کہ این پی آر، این آر سی، سی اے اے کا واحد مقصد نہ صرف انڈیا بلکہ برصغیر کے عوام کو غیر مستحکم کرنا اور انھیں تقسیم کرنا ہے۔
انھوں نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر آئینی طور پر ختم کیے جانے کا 210 واں دن ہے۔ کشیمر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت ہزاروں کمشیری جیلوں میں ہیں اور 70 لاکھ سے زیادہ افراد حقیقی طور پر معلومات سے محروم ہیں جو کہ انسانی حقوق کی عوامی سطح پر خلاف ورزی کا ایک انوکھا طریقہ ہے۔ 26 فروری کو دہلی کی سڑکیں سرینگر کی سڑکوں کی طرح تھیں۔‘

انڈیا میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے ہلاک ہونے والے کو خراج عقیدت پیش کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اروندھتی رائے نے مزید کہا کہ ایسی جمہوریت جس میں آئین کی عملداری نہ ہو اور جس کے سارے ادارے کھوکھلے ہو چکے ہوں وہاں کسی بھی وقت اکثریت راج بن سکتا ہے۔
’آپ آئین یا اس کے کسی حصے سے اتفاق یا اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن اس طرح عمل کرنا کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے جیسا کہ یہ حکومت کر رہی ہے یہ جمہوریت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ شاید یہی مقصد ہے۔ یہ کرونا وائرس کا ہمارا ورژن ہے۔ ہم بیمار ہیں۔‘

شیئر: