Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلبہ آن لائن پڑھائی سے ناخوش کیوں؟

ایچ ای سی کے مطابق چھٹیوں کو بڑے امتحان کی تیاری کے لیے استعمال کریں۔ (فوٹو: پیک پکس)
کورونا وائرس نے محض لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ اس نے زندگی کو ہر زاویے سے مختلف بنا دیا ہے۔ اب پڑھائی کو ہی لے لیجیے جب سے کالجوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں میں چھٹیاں کی گئی ہیں لاکھوں طالب علم گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
تاہم تعلیمی ادارے اس صورت حال میں کچھ نیا سوچ رہے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معاملات دیکھنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ متبادل طریقہ تعلیم پر کام کریں۔
ایچ ای سی نے کہا ہے کہ ان چھٹیوں کو 'بڑے امتحان' کی تیاری کے لیے استعمال کریں یعنی اگر کورونا وبا لمبا عرصہ رہتی ہے تو پھر طالب علموں کو اپنے گھروں میں تعلیم دینے کا بندوبست کیا جائے۔ بیشتر نجی اور سرکاری اداروں نے اس حوالے سے اقدامات کر لیے ہیں اور طلبہ کو آن لائن لیکچرز اور دیگر تعلیمی مواد بھیجا جا رہا ہے۔
اسوا وڑائچ جو کہ اسلام آباد میں ایک نجی یونیورسٹی میں سوشل سٹڈیز کی طالب علم ہیں وہ اس نئے آن لائن پڑھائی کے بندوبست سے خوش نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'مجھے تو آپ نہ ہی پوچھیں کورونا سے بچ گئے تو ڈپریشن سے نہیں بچیں گے۔ جب سے چھٹیاں ہوئی ہیں میرے کالج کی طرف سے رابطہ کیا گیا ہے کہ آپ کو آن لائن کلاسز دی جائیں گی۔ اب آپ اندازہ کریں کہ آن لائن کلاسز شروع ہیں اور کچھ پلے نہیں پڑ رہا۔ یہ طریقہ قابل عمل ہے ہی نہیں۔'
اسوا وڑائچ کے مطابق ایک لیکچر کسی سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے، اسے ڈاؤن لوڈ کریں اور اس کے بعد استاد سے واٹس ایپ گروپ میں رابطے میں رہیں۔ اب ہر کلاس کا علیحدہ سے گروپ ہے اور سب مچھلی منڈی بنا ہوتا ہے۔ بھئی ہر ایک طالب علم کے سیکھنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے آپ اس طریقے سے انہیں نہیں پڑھا سکتے۔'
اسی طرح لاہور سے تعلق رکھنے والی تحریم فاطمہ بھی نئے آن لائن بندوبست سے ناخوش دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میں نفسیات کی طالب علم ہوں اور میں یہ برملا کہتی ہوں کہ آن لائن طریقہ تعلیم خصوصاً جس عارضی طریقے سے اب شروع کیا گیا ہے یہ قابل قبول نہیں۔'

طلبہ کی اکثریت کا کہنا ہے آن لائن پڑھائی حقیقی تعلیم کا متبادل نہیں۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

'ہم نے لاکھوں روپے فیس دے رکھی ہے یا تو بین الاقوامی سطح کا متبادل نظام مہیا کیا جائے یا پھر طالب علموں کو سمیسٹر بریک دی جائے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ پیسے تو حقیقی کلاسز کے لیے جائیں لیکن جگاڑ لگا کر پڑھا جائے۔'

آن لائن تعلیم کیسے دی جا رہی ہے؟

ماہین احمد جو مختلف اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں اور وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر کام کر رہی ہیں نے بتایا کہ وہ مختلف اداروں کے ساتھ ان کی پالیسی کے مطابق وہ طریقہ استعمال کر رہی ہیں جو وہاں کے بچوں کے لیے قابل عمل ہے۔
'ایک ادارے کے لیکچر میں انٹرنیٹ ویڈیو کانفرنس سروس زووم کے ذریعے کر رہی ہوں جس میں باقاعدہ ویڈیو لیکچر فراہم کرتی ہوں، اس کے علاوہ فیس بک لائیو کے ذریعے بھی میں کلاسز لے رہی ہوں۔'

وبا کے دنوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہنا غنیمت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ 'میں یہ ضرور کہوں گی کہ چونکہ ہمیں بہت کم وقت میں حقیقی کلاس رومز سے ورچوئل کلاس رومز کی طرف جانا پڑا ہے اس لیے اس میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ عارضی طور پر کچھ نہ کرنے سے تو بہت بہتر ہے۔'
طلبہ کا وقت نہایت قیمتی ہوتا ہے ویسے تو پاکستان میں گرمیاں شروع ہونے والی ہیں اور گرمیوں میں چھٹیاں بھی ہوتی ہیں اس کے باوجود اگر تعلیم کا عمل جاری رہتا ہے تو یہ ایک غنیمت ہے۔'
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہمیں ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ آیا ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اگلے کچھ وقت کے لیے آن لائن طریقہ تعلیم رائج کر دیا ہے یا نہیں لیکن ہم نے اپنے طور پر کافی حد تک تیاری کر لی ہے۔'

آن لائن تعلیم میں طلبہ کو کلاس روم کا ماحول ملے تو آسانی ہوگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

'ہمارے مختلف شعبوں نے آن لائن ٹیسٹنگ شروع کر رکھی ہے جس میں وہ مختلف آئی ٹی ٹولز کی مدد لے رہے ہیں، ہم مائیکروسافٹ کانفرنس اور زووم جیسی سروسز کو ابتدائی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔'
ایک سوال کے جواب میں کہ ایسے بے شمار طلبہ جو ہاسٹلز میں رہتے تھے اب واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے ہیں چونکہ یہ ویڈیو سروسز تیز رفتار انٹرنیٹ کی متقاضی ہیں تو اس بارے میں کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی ہم ٹیسٹنگ فیز میں ہیں اور یہ سارے مسائل ہمارے علم میں آ رہے ہیں، اس حوالے سے ہماری پی ٹی سی ایل سے بات چیت بھی چل رہی ہے، اگر آن لائن طریقہ تعلیم پر باقاعدہ پالیسی کے طور پر شفٹ ہوا جاتا ہے تو طالب علموں کے پاس تیز ترین، سستے اور مکمل بینڈ والے انٹرنیٹ کنکشنز کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی کیونکہ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔'

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آن لائن تعلیم کا طریقہ رائج ہے (فوٹو: عرب نیوز)

کیا آن لائن طریقہ تعلیم واقعی مشکل ہے؟

ویسے تو آن لائن طریقہ تعلیم کوئی نئی بات نہیں، دنیا بھر میں ڈسٹنس لرننگ کی یونیورسٹیز موجود ہیں جو آن لائن کورسز پڑھا کر ڈگریاں بھی فراہم کر رہی ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جب ورک فرام ہوم یعنی گھر سے کام کرنے جیسی اصطلاحات روزمرہ کا حصہ بن چکی ہی وہیں اب بات گھر سے تعلیم کی طرف بھی جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
اسلام آباد کے نجی تعلیمی ادارے ریپبلک کالج کے سربراہ حماد حسین سمجھتے ہیں کہ آن لائن طریقہ تعلیم مشکل نہیں، اگر اس کو اس کی روح کے مطابق کیا جائے۔
'ہم نے بھی اپنا کالج بند کیا ہے اور اس وقت ہم ایک ایسے سافٹ ویئر پر کام کر رہے ہیں جو ہمارے طلبہ کو مکمل کلاس روم کا ماحول مہیا کرے جیسا کہ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیز پہلے ہی کر رہی ہیں۔'

ماہرین کے مطابق آن لائن تعلیم میں تمام نوٹسز کا آن لائن ہونا ضروری ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

انہوں نے بتایا کہ 'دنیا پہلے ہی آن لائن ہو رہی تھی اس کورونا نے اس عمل کو انتہائی تیز کر دیا ہے۔ جو کام اگلے دس پندرہ برسوں میں پاکستان جیسے ملکوں میں ہونا تھے وہ ابھی سے شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں ایسے ادارے ہیں جنہوں نے اپنے مخصوص سافٹ ویئر بنا لیے ہیں لیکن ابھی بھی ان پر کام ہونا باقی ہے کیونکہ اس سے اب دو طرح کی چیزیں ہو گی ایک تو اداروں کی فیس کم کرنا پڑے گی کیونکہ جب آپ کی عمارتیں استعمال نہیں ہو رہیں، اخراجات نہیں ہو رہے تو آپ بچوں سے پیسے بھی کم لیں گے۔
ان کے مطابق 'اس کے ساتھ ساتھ آن لائن طریقہ تعلیم عام تعلیم کے اتنے برابر لانا بھی ضروری ہو گا کہ سوائے سوشل انٹرایکشن کے باقی سب نارمل طریقہ تعلیم کے برابر ہو۔'

'ہمیں بہت کم وقت میں ورچوئل کلاس روم کی طرف جانا پڑ رہا ہے' (فوٹو: اے کے ای ایس) 

حماد حسین کا ماننا ہے کہ 'آن لائن کوالٹی سروسز دینے سے طلبہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ وہ آن لائن سروسز لیں یا نہ لیں کیونکہ آن لائن طریقہ تعلیم کے اپنے بہت سے فائدے ہوتے ہیں جو کہ صرف آپ اس نظام سے منسلک ہو کر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہر لیکچر کا ہر وقت دستیاب ہونا اور تمام نوٹسز کا آن لائن ہونا جس سے وقت اور قوت دونوں کی بے پناہ بچت ہو گی۔'
آن لائن طریقہ تعلیم کے فوائد اور نقصانات اپنی جگہ لیکن اس وقت وبا کے دنوں میں یہ ایک مجبوری بن چکی ہے اور طلبہ کو مسئلہ صرف ایک نظام سے دوسرے نظام پر منتقل ہونے کے دوران نفسیاتی مشکلات کا ہے کہ وہ کیسے جلد سے جلد نئے حقائق سے مطابقت حاصل کرتے ہیں۔

شیئر: