Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بدترین بحران‘، کورونا سے 46 ہزار ہلاکتیں

اٹلی اور سپین کو کورونا وائرس کی وجہ سے بدترین صورتحال کا سامنا ہے (فوٹو:اے ایف پی)
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اب تک 46 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جسے اقوام متحدہ نے دوسری جنگ عظیم  کے بعد انسانیت کے لیے بدترین بحران قرار دیا ہے۔
یورپ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اٹلی اور سپین کو اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے بدترین صورتحال کا سامنا ہے جہاں اس وبا سے ہلاکتوں کی تعداد دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
سپین میں 24 گھنٹوں کے دوران 864 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس کے بعد ملک میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 9 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
سپین میں اس وقت کورونا کی وبا سے ہلاکتوں کی تعداد اٹلی میں ہونے والی اموات  کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
برطانیہ میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ شرح اموات میں اضافہ ہورہا ہے جہاں اب تک 2،352 افراد کورونا وائرس کے باعث دم توڑ گئے۔

سپین میں 24 گھنٹوں کے دوران 864 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے کورونا وائرس ریسورس سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کورونا سے اموات کی تعداد46   ہزار 251 ہو گئی ہے۔
اب تک کورونا کے کنفرم 9 لاکھ 21  ہزار 924  کیسز دنیا بھر میں رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ ایک لاکھ 83   ہزار 227  افراد اس بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ اموات اٹلی میں ہوئی جن کی تعداد 13  ہزار 155  ہے۔ سپین میں  نو ہزار 131، چین میں تین ہزار 193، فرانس میں  تین ہزار 553  اور ایران میں تین ہزار 36 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ آئندہ دو ہفتے انتہائی تکلیف دہ ہوں گے۔
پوری دنیا میں حکومتوں نے عوام کو گھر تک محدود رہنے کی ہدایت کررکھی ہے جبکہ تمام تعلیمی ادارے اور دکانیں بند ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آفس کے بجائے گھروں سے کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز کے مطابق  کورونا کی وجہ سے غیرمعمولی ہنگامے کی وجہ سے  دنیا میں امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ انہوں نے کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ’انسانیت کے لیے جنگ عظیم دوئم کے بعد کا بدترین بحران‘ قرار دے دیا ہیں۔

پوری دنیا میں حکومتوں نے عوام کو گھر تک محدود رہنے کی ہدایت کررکھی ہے (فوٹو:اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ' اس بیماری سے دنیا کے ہر فرد کو خطرہ ہے اور اس سے ایسا معاشی عدم استحکام پیدا ہوگا جو ماضی میں کسادبازاری سے مطابقت نہیں رکھتا ہوگا۔'
کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سی تجارتی سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے رک گئی ہیں، دنیا بھر میں اقتصادی بدحالی اور غیر یقینی نظر آ رہی ہے۔
اٹلی میں سوپ کچنز کے باہر قطاریں طویل ہوتی جا رہی ہیں جبکہ کئی سپر مارکیٹس میں لوٹ مار کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
اٹلی کے زرعی شعبے کی سب سے بڑی یونین کے عہدے دار کولڈیریٹی کا کہنا ہے کہ 'ملک میں اب مزید پانچ لاکھ افراد کو خوراک کے لیے مدد کی ضرورت ہے جبکہ گذشتہ برس کے 27 لاکھ ضرورت مند افراد بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔'
خوراک کی امداد فراہم کرنے والی ایک تنظیم چلانے والے روبرٹو ٹیورٹو کا کہنا ہے کہ 'عام طور پر ہم ایک لاکھ 52 ہزار 525 افراد کو خوراک مہیا کرتے ہیں تاہم اب 70 ہزار درخواستیں مزید آ گئی ہیں۔'
انہوں نے خبردار کیا کہ 'اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وائرس سے پیدا ہونے والا یہ بحران سکیورٹی کا بحران نہ بن جائے۔'

برطانیہ میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ شرح اموات میں اضافہ ہورہا ہے (فوٹو:اے ایف پی)

دوسری جانب تیونس میں سینکڑوں افراد نے ملک میں ایک ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کیا جس نے غریب طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔
دارالحکومت تیونس سٹی کے مضافات میں ہونے والے مظاہرے میں شریک ایک شخص نے چلا کر کہا کہ 'کورونا وائرس اہم نہیں ہے، ہم نے تو ویسے بھی مر جانا ہے، ہمیں کام کرنے دیا جائے۔'
براعظم افریقہ کے سب سے بڑے شہر لاگوس میں بدھ کو لاک ڈاؤن کا دوسرا روز ہے تاہم یہاں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اس صورت حال میں ایک بڑا چیلنج ہے۔
افریقی بستیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ یہ سراسر ناممکن ہے کہ 21 روزہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر بیٹھا جائے۔
خیلٹشہ کی بستی کی 55 سالہ ارین ٹیسٹس کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس ٹوائلٹس ہیں نہ پانی، لہٰذا ہمیں گھروں سے باہر جانا ہی پڑے گا۔'

شیئر: