Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کب کن وباؤں کا شکار ہوا

سنہ 1809 کے دوران الدرعیہ کے علاقے میں زبردست وبا آئی تھی- فوٹو عرب نیوز
سعودی سوسائٹی برائے تاریخ کے رکن زاھی الخلیوی نے مختلف اوقات میں سعودی عرب میں پھیلنے والی خطرناک وباؤں کا انکشاف کیا ہے- انہوں نے بتایا کہ ان وباؤں سے ہزاروں افراد کی موت واقع ہوگئی تھی-
سبق ویب سائٹ کے مطابق الخلیوی نے بتایا کہ سنہ 1809 کے دوران الدرعیہ کے علاقے میں زبردست وبا آئی تھی- اس سے بہت سارے لوگ مر گئے تھے- ایک دن میں 30 اور چالیس میتیں اٹھ رہی تھیں-
خلیوی نے بتایا کہ امام سعود نے جو اس وقت مملکت کے حکمران تھے، الدرعیہ کے باشندوں کے نام کھلا پیغام بھیجا تھا جسے الدرعیہ کی مساجد میں پڑھ کر سنایا گیا تھا- انہوں نے عوام سے التجا کی تھی کہ وہ گناہوں بھری زندگی تر ک کردیں- اللہ تعالی سے کوتاہیوں کی معافی مانگیں- اللہ کی رحمت سے یہ توبہ ختم ہوگئی-

ایک دن میں کئی میتیں اٹھ رہی تھیں- فوٹو عرب نیوز

الخلیوی نے بتایا کہ 1813 میں سدیر، منیخ میں ایک اور وبا آئی- اس میں لوگوں کو بخار ہوتا تھا اور اس سے متاثر ہونے والوں کی موت واقع ہوجاتی تھی- اس میں بہت سارے لوگوں کی اموات ہوئیں- سب سے زیادہ اموات جلاجل میں ہوئیں جہاں چھوٹے بڑے خواتین اور مرد 600 سے زیادہ مر گئے تھے-
ایک اور بڑی وبا 1820 کے دوران آئی یہ سعودی عرب تک محدود نہیں تھی- یہ وبا پوری دنیا میں پھیل گئی تھی- پیٹ میں درد ہوتا تھا، موشن اور قے آتی تھی- دو تین دن کے اندر متاثرہ شخص مر جاتا تھا- اس وبا سے سب سے زیادہ السدیر اور الاحسا کے لوگ متاثر ہوئے تھے-
یہ وبا عازمین حج کے آنے سے قبل شوال میں پھوٹی تھی اسے مقامی باشندے (ابوزویعۃ) کہا کرتے تھے- پھر 15 ذی قعدہ کو اس وبا نے مکہ اور حجاز کے بیشتر باشندوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا- اس وبا کی وجہ سے بے شمار لوگ مر گئے تھے- میتوں کی تعداد اتنی تھی کہ انہیں دفن کرنے والے نہیں  مل رہے تھے- ایک اندازے کے مطابق مکہ کے 16 ہزار افراد اس وبا کا شکار ہوئے تھے- شام سے آنے والے چند ہی حاجی اس وبا سے محفوظ رہے تھے-
نجد کے بعض علاقوں کے تمام حاجی، کچھ کے پچاس فیصد اور کچھ کے اس سے زیادہ اس وبا میں انتقال کر گئے تھے- آگے چل کر اس وبا نے ذی الحجہ کے مہینے میں عید الاضحی کے دن دوبارہ حملہ کیا- اس سے متاثر انسان چلتے چلتے گر کر مر جاتا تھا-

1820 میں آنے والی وبا پوری دنیا میں تیزی سے پھیلی- فوٹو واس

منیٰ میں قیام کے دوران بحران شدت اختیار کر گیا تھا- وبا سے مرنے والے سڑکوں پر پڑے نظر آنے لگے تھے- حاجی حضرات منی سے اس شکل میں واپس ہوئے تھے کہ اونٹوں پر میتیں لدی ہوئی تھیں- منی سے حاجیوں کی واپسی پر مکہ میں  یہ وبا شدت اختیار کر گئی تھی- مکہ کے بازارمیتوں سے بھر گئے تھے- مرنے والے اتنے تھے کہ انہیں دفنانے والا کوئی نہ تھا- 20 ذی الحجہ تک وبا جاری رہی اور رفتہ رفتہ شدت اختیار کرتی چلی گئی-
الخلیوی نے بتایا کہ 1831 میں طاعون کی وبا آئی- اکثر ممالک کواس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا- نہ جانےکتنے لوگ اس میں ہلاک ہوئے- گھر کے گھر انسانوں سے خالی ہوگئے- گھروں میں مرنے والوں کو دفنانے والے نہیں رہے- اثاثے لینے والا کوئی نہیں رہا- پورے علاقے میں میتییں سڑنے لگیں- جانورادھر ادھر گھومنے لگے انہیں کوئی چارہ دینے والا نہیں تھا جس کی وجہ سے جانور مر گئے- مساجد میں نمازیں ختم ہوگئیں-
الخلیوی نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ 1918 میں پورے جزیرہ عرب میں اسپینی انفلوئنزا کی وبا پھیلی تھی اس میں بے شمار لوگ ہلاک ہوئے- زیادہ تر مرنے والےبچے اورعورتیں تھیں- ریاض میں کم از کم ایک ہزار افراد کی موت واقع ہوئی تھی- بریدہ اورعنیزہ میں بھی مرنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی- یہ وبا تقریباً چالیس دن جاری رہی-

 

خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: