Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے باعث ہزاروں آپریشن معطل، مریضوں کا پرسان حال کون؟

سرکاری ہسپتالوں کے او پی ڈیز مکمل طور پر بند ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی ایمرجنسی نے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں ہسپتالوں کے آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹس (او پی ڈیز) کے بند ہونے سے عام مریض بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے او پی ڈیز مکمل طور پر بند ہیں اور انہیں کورونا وارڈز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
محمد حسن کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے اور وہ مثانے کی ایک بیماری میں مبتلا ہیں۔ حسن کی عمر 29 سال ہے اور اپریل کے پہلے ہفتے میں ان کی سرجری لاہور ہی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ہونا تھی، لیکن اب انہیں معلوم نہیں کہ ان کا آپریشن کب ہو گا کیونکہ لاہور کے سروسز ہسپتال میں ہونے والے تمام آپریشن مارچ کے تیسرے ہفتے سے مکمل طور پر معطل ہیں۔
محمد حسن نے بتایا کہ ’جنوری کے مہینے میں ڈاکٹرز نے تجویز کیا کہ میرا آپریشن ناگزیر ہے اور اس کے بعد مجھے ہسپتال نے آپریشن کے لیے چار اپریل کی تاریخ دی۔ اس بات کا تو مجھے پتا تھا کہ ہسپتالوں میں کام نہیں ہو رہا پھر بھی میں نے مقررہ تاریخ کو جب ہسپتال سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی آپریشن نہیں ہو رہے کورونا سے متعلق حالات بہتر ہوں گے تو اس کے بعد مجھے نئی تاریخ دی جائے گی۔ میں شدید تکلیف میں ہوں کیونکہ اب دوائی بھی زیادہ اثر نہیں کر رہی اور مجھے کچھ نہیں پتا کہ کیا بنے گا۔‘
یہ صرف محمد حسن کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہزاروں ایسے مریض ہیں جو کورونا کی وبا کی وجہ سے اپنے علاج سے محروم ہیں۔
کتنے مریض ایمرجنسی حالات سے متاثر ہیں؟
اردو نیوز نے اس بات کی جانچ کے لیے لاہور کے چند سرکاری ہسپتالوں کے اعداد و شمار اکٹھے کیے تو صورت حال کچھ اس طرح سے نظر آئی۔
لاہور کا میو ہسپتال، جہاں اس وقت کورونا کے سب سے زیادہ مریض بھی ہیں، اس کی صورت حال یہ ہے کہ او پی ڈی بند ہونے کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ 25 ہزار لوگ علاج سے محروم ہوئے ہیں۔

ہسپتالوں میں ایمرجنسی اور زچگی کے آپریشنز کو معطل نہیں کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

میو ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق ہسپتال میں روزانہ چھ  ہزار کے قریب مریض او پی ڈی میں اپنے علاج کی غرض سے آتے تھے جبکہ او پی ڈی 15 مارچ سے بند ہے۔ اسی طرح میو ہسپتال میں کل 67 آپریشن تھیٹر ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر چھوٹے بڑے 500 سے زائد آپریشن کیے جاتے تھے جو کہ اب مکمل طور پر معطل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت ساری مشینری کورونا کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ایسے میں ہمارے ڈاکٹرز ایک حد تک ٹیلی میڈیسن کی مدد سے مریضوں کو مشورے دے رہے ہیں۔ جبکہ ایمرجنسی مکمل طور پر کام کر رہی ہے اور اس سے منسلک آپریشن تھیٹر بھی کام کر رہے ہیں اسی طرح زچگی کے آپریشنز کو بھی معطل نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔‘
لاہور کے ایک اور بڑے سرکاری ہسپتال میں بھی او پی ڈی مکمل بند ہے جہاں روزانہ 3000 سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا جبکہ سروسز ہسپتال کے 27 آپریشن تھیٹر بھی بند ہیں جہاں روزانہ اڑھائی سو سے زائد آپریشن کیے جاتے تھے۔ 15 مارچ سے اب تک 5000 ہزار سے زائد آپریشن معطل ہو چکے ہیں۔
سروسز ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ ’ہماری ایمرجنسی اور گائنی سے منسلک آپریشن تھیٹر کام کر رہے ہیں جہاں انتہائی فوری نوعیت کے مریضوں کو لیا جا رہا ہے۔ ایک صورت حال جس کا ہمیں سامنا ہے وہ ایمرجنسی مریضوں کا کورونا کے حوالے سے بھی معائنہ لازمی کیا جا رہا ہے۔ اور مشتبہ افراد کے کورونا ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر گائنی کے کیسز میں۔‘

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر رش کم ہونے کی وجہ سے روڈ ایکسیڈنٹس میں واضح کمی ہوئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کورونا کی اس صورت حال کے پیش نظر سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں بھی مریضوں کی تعداد بہت کم ہوئی ہے۔
میو ہسپتال کی ایمرجنسی جہاں روزانہ 3000 ہزار سے زائد مریض آتے تھے اب ان کی تعداد 600 کے قریب رہ گئی ہے۔ اسی طرح سروسز ہسپتال میں جہاں ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کی تعداد 2000 کے لگ بھگ تھی اب وہ 500 تک آ گئی ہے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر رش کم ہونے کی وجہ سے حادثات میں واضح کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہسپتالوں کی ایمرجنسی پر بوجھ کم ہوا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: