Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کرفیو کے دوران کام اور صحت دونوں میں توازن

باوثوق خبروں کے لیے کورونا وائرس کے چیلنج  کا سامنا ضرور ہے(فوٹو عرب نیوز)
سعودی میڈیا  میں خدمات انجام دینے والے صحافی کورونا وائرس کے باعث کرفیو کے دوران اپنے کام اور صحت میں توازن برقرار رکھنے کی کیسے کوشش کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق میڈیا  اپنے قارئین کو ہر خبر سے باخبر رکھنے کے لیے  معیاری اور باوثوق خبروں کے لیے کورونا وائرس کے چیلنج  کا سامنا کرنا پڑرہا ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث صحافیوں کو تازہ خبروں کو ایڈٹ  کرنے یا اپ لوڈ کرنے میں تو مدد مل رہی ہے لیکن فیلڈ میں نکل کر خبریں لانا اور ایسے میں اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت کو خطرے میں ڈالنا بھی ایک چیلنج ہے۔
میڈیا کے ساتھ منسلک بہت سے ایسے افراد کے لیے یہ ایک عجیب حقیقت ہے جو تیز رفتار زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔
سعودی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ الحجلان نے  اپنے ایک بیان میں تمام صحافی برادری کو  مختلف مشورے دیتے ہوئے بتایا ہے کہ موجودہ حالات میں اپنا کام جاری رکھنے کے لیے آپ کو کیا کرنا چاہئے۔

ریاض ریڈیو چینل کی خاتون رپورٹر عرفات المجید نے بتایا ہے کہ انہوں نے لاک ڈاون کے دوران بہتر رہنمائی کے لیے آن لائن کورسز کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کام کے لیے گھر سے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے دباو کا شکار ضرور ہوں لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس دوران اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل رہا ہے اور اپنے بچوں کے قریب تر ہوں۔
جب سے علاقے میں کرفیو نافذ ہوا ہے میں گھر سے نہیں نکلی اور خبروں کی ترسیل کا سلسلہ آن لا ئن اور ایپ کے ذریعے جاری ہے۔

کئی  دیگر رپورٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے لیے  خبروں  کے ذرائغ یا خبروں کو ایڈٹ کرنے میں کچھ زیادہ نہیں بدلا۔
سعودی صحافی خالد المطرفی نے بتایا ہے کہ میں اس سے قبل بھی خبروں کے ذرائع کے لیےسمارٹ ایپلی کیشن اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتا رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میرے روزمرہ معمولات میں صرف  اتنا ہی بدلا ہے کہ مجھے مزید پڑھنے کا وقت مل رہا ہے۔

اخبار الاقتصادیہ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر انچیف محمد البیشی نے کہا ہے کہ اس وبائی  مرض سے بہت سارے صحافیوں کو اپنے روزمرہ کے کاموں میں تکینکی مہارت کو بروئے کار لانے کا  مناسب موقع ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اب بھی صبح  9 سے 5 بجے شام تک کام کرتا ہوں۔ اخبار کو چھپنے کے لیے پریس میں بھیجے جانے سے قبل صفحات کا جائزہ بھی لیتا ہوں۔
الاقتصادیہ کے پاس ایک اچھا نظام موجود ہے جو اپنے عملے کو بغیر کسی مشکل کے آن لائن کام کی اجازت دیتاہے۔

کورونا وائرس کے سبب صرف ان چیزوں میں تبدیلی آئی ہے کہ ہم عام لوگوں کے ساتھ معاملات  کرنے کے لیے ذاتی طور پر ملاقات نہیں کرسکتے۔
بہت سے ایسے ایونٹ جو  کورونا وائرس کے باعث ختم کر دیئے گئے ہیں یہ سال بھر کی خبروں کی کوریج  کے لیےاعدادوشمار میں بڑی تبدیلی ثابت ہوں گے۔
انہوں نے ان دنوں فیلڈ رپورٹرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ براہ راست رپورٹنگ کرتے یا ویڈیو بناتے وقت انتہائی محتاط رہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا زیادہ وقت خاندان کے ساتھ گزارنے پر خوش ہوں، بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوں اور پڑھائی میں ان کی مدد کرتا ہوں۔
انہوں نے ازراہ مذاق کہا کہ میرے بچے یہ بھی جان گئے ہیں کہ میں کس قسم کا باورچی ہوں۔

الاخباریہ ٹی وی چینل کے اینکر سلمان القرنی نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے اسباب کے پیش نظر میں کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے سے پہلے دو مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوں۔ اگر  کسی کام سے باہر نکلنا ہے تو میں سینیٹائزر، ماسک اور دستانوں کا استعمال ضرور کرتا ہوں۔
جہاں کہیں بھی جاتا ہوں آنکھوں کے سامنے 'چھوئیں مت' کا نشان آجاتا ہے۔ جب کسی انٹرویو کے لیے مائیک تھامتا ہوں تو بھی اس بارے میں ہی سوچ رہا ہوتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ میں سٹاک مارکیٹ پر نظر رکھتا ہوں اور  بہت نزدیک سے اس کا جائزہ لے رہا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ  ان حالات میں  سٹاک مارکیٹ کبھی بھی گر سکتی ہے۔

ایک اور ٹی وی اینکر لفی الرشیدی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں کورونا وائرس کی خبریں یومیہ کی بنیاد پڑھ رہا ہوں اور اس بیماری کی پیش رفت کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات کے قریب تر ہوں۔ میری بیٹی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے اور میرا بیٹا اس بارے میں بہت سے سوالات کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کو یقین دلاتا ہوں  کہ جب تک ہم سب وزارت صحت کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں گے ہم بہت زیادہ محفوظ رہیں گے۔
سعودی عرب کے ریڈیو مونٹی کارلو کے ایک رپورٹر احمد الزاہانی نے بتایا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں سے انہوں نے اپنا زیادہ وقت مختلف ثقافتوں اور کھیلوں کا مطالعہ کیا ہے اور زیادہ تر وقت گھر پر ہی کام کیا اور لوگوں سے ملنا بہت کم کر دیا ہے جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ میں آن لائن ڈیلیوری کی وصولی کے بعد فورا ہاتھ دھوتا ہوں۔ شاذ ونادر ہی سپر مارکیٹ تک جاتا ہوں اور صبح کی تازہ ہوا کے لیے گھر کی کھڑکیاں کھولتا ہوں۔
سکائی نیوز آفس کے مینجر حماد المحمود نے سعودیعرب میں انٹرنیٹ کے مضبوط انفراسٹریکچر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بدولت صحافیوں کو بغیر کسی مسئلے کے اپنا کام انجام دینے میں مدد ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی اور اپنے اہل خانہ  کی حفاظت کے لیے وزارت صحت کی ہدایات پر عمل کرتا ہوں۔

شیئر: