Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے اس کام کی توقع نہیں کر سکتا‘

کوئٹہ میں حفاظتی سامان کی عدم فراہمی پر احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز اور حکومت میں تنازع ختم نہیں ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے متعلق الزامات اور جوابات کا سلسلہ اب سوشل میڈیا تک پہنچ کر مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
کئی دنوں سے حفاظتی سامان کی عدم فراہم پر احتجاج کرنے والے کوئٹہ کے ڈاکٹرز نے بدھ کی رات وزیراعلی ہاؤس کے قریب دھرنا دیا اور بتایا کہ ان کے مطالبات اب بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرز کی جانب سے ایک بار پھر احتجاج کی اطلاع سامنے آئی تو وزیراعلی بلوچستان جام کمال نے معاملے کے پس پردہ سیاسی محرکات کی موجودگی کا شبہ ظاہر کر ڈالا۔
مائکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں انہوں نے لکھا کہ ’میں امید اور دعا کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ سیاسی محرکات کی بنیاد پر کیا گیا کام نہ ہو، اپنے ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے اس کام کی توقع نہیں کر سکتا، امید کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔

وزیراعلی ہاؤس کے قریب احتجاج کرنے والے طبی عملے نے خود بھی سوشل میڈیا کا رخ کیا اور اپنے مطالبات و احتجاج کی تفصیل شیئر کیں۔ وکی بنگلزئی نامی ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر نے لکھا ’حکومت کی وجہ سے ایک بار پھر ڈاکٹرز سڑکوں پر ہیں۔‘

امان اللہ نامی ایک صارف نے حکومتی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’ایک حقیقی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے آپ اسے ڈائیورٹ کر رہے ہیں۔ یہ آپ کی اپنی کمزوری ہے کہ ڈاکٹرز اپوزیشن سے رابطے کر رہے ہیں، آگے آئیں اور کورونا سے متعلق اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں‘۔
ا

محبت خان ترین ڈاکٹر نے وزیراعلی بلوچستان کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’اگر یہ آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تو آئیں میں اسے ممکن اور آسان بناتا ہوں، آپ کی کمیٹی آج کہاں تھی؟‘

پیر کو کوئٹہ میں ڈاکٹرز کے احتجاج کے دوران پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 100 سے زائد معالجین کو گرفتار کر لیا تھا۔ واقعے پر شدید تنقید کے بعد ڈاکٹروں کو رہا کر دیا گیا تھا تاہم طبی خدمات فراہم کرنے والوں کا غم و غصہ کم نہیں ہوا تھا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کوئٹہ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹرحنیف لونی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ حکومتی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وزیراعلیٰ ٹویٹ کر کے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ ہم کسی مافیا کا حصہ نہیں۔
حکومت کی جانب سے طبی عملے کو حفاظتی سامان کی فراہمی کے متعلق اعلانات پر عملدرآمد بھی سوشل میڈیا پر جاری بحث کا حصہ بنا۔ عاصم احمد خان نامی ٹوئٹر صارف نے ینگ ڈاکٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’ہم سے این 95 کی رسید پر دستخط لے کر کاغذ کے ماسک دے دیے گئے۔‘

عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں طبی عملے کے کورونا کا شکار ہونے کی تعداد سندھ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ آٹھ اپریل کو سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں طبی عملے کے 25 ارکان کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزا تسلیم کر چکے ہیں کہ حفاظتی طبی آلات دو وجوہات کی بنا پر تمام طبی مراکز یا عملے تک نہیں پہنچ سکے۔ ایک تو لاجسٹکس کے مسائل ہیں اور دوسرا اس کے غیر مناسب استعمال کی وجہ سے یہ ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکے جن تک پہنچنے چاہیے تھے۔

بلوچستان حکومت اور ینگ ڈاکٹرز کا تنازع سماجی ٹائم لائنز تک پہنچ کر مزید شدت اختیار کر گیا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ اب تک پانچ لاکھ این 95 ماسک فراہم کیے گئے ہیں تاکہ صرف کورونا مریضوں کو علاج فراہم کرنے والا عملہ ہی اسے استعمال کرے لیکن وہ لوگ بھی اسے استعمال کر رہے ہیں جن کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔
بلوچستان میں حکومت نے 21 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے صوبے میں لاک ڈاؤن رہے گا، سات اپریل کو یہ مدت ختم ہونے سے قبل ہی اس میں مزید دو ہفتوں کا اضافہ کرتے ہوئے 21 اپریل تک پابندیاں برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: