Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'یہ پوچھو لڑکا اعتبار قائم رکھے گا؟'

صارفین کا خیال ہے کہ رشتہ جوڑتے وقت 'تنخواہ کتنی ہے' جیسے سوال نہیں پوچھنے چاہیئیں (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ کچھ معاشرتی روایات اور فرسودہ رسم و رواج کو بدلنے کی بات کی جاتی ہے۔ سماجی تنظیموں کی طرف سے بھی ایسی روایات کو ختم کرنے کا مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے جس کے ذریعے معاشرے کے کسی خاص گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہو۔ 
آج سوشل میڈیا پر خواتین کے حوالے سے ایک ٹویٹ پر نظر پڑی جس کے بعد شدت سے یہ احساس ہوا کہ واقعی ایسے سوالات اگر کسی لڑکے سے پوچھیں جائیں تو یہ اس کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوگا۔ بالکل ویسے ہی جیسے لڑکیاں ان سوالات سے گھبراتی ہے۔
ٹوئٹر صارف شجاعت علی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ کیسا کلچر ہے جس میں لڑکوں سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ شادی کے بعد معیار زندگی بہتر کر سکتے ہیں اور یہ بات سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ آپ کے والد 50 سال کی عمر میں آپ کو جو طرز زندگی دے پائے ہیں وہ سب آپ کا بیٹا 20 سال کی عمر میں کیسے دے سکتا ہے اور وہ بھی ان حالات میں جہاں مہنگائی اور بے روزگاری بھی بڑھ چکی ہو۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ 'ان سوالات کو بھی بدلنا چاہیے کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ گھر اپنا ہے یا کرائے کا؟ گاڑی ہے یا بائیک؟ نوکری پکی ہے؟'

اس سوال کے جواب میں ٹوئٹر صارف بختاور نے لکھا کہ واقعی یہ اچھی سوچ ہے بلکہ اس کی جگہ اگر یہ سوالات ہوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔
'کیا بیٹی کو خوش رکھو گے؟ بھوک پیاس برداشت کر لے گی کبھی بے وفائی تو نہیں کرو گے؟ اعتبار قائم رکھو گے؟'

فاطمہ خان نے لکھا کہ 'شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے لڑکوں کی شادیاں تاخیر کا شکار ہیں کیونکہ وہ بہترین تنخواہ، اچھی اور پکی نوکری جیسے مسائل سے پریشان ہیں۔'

ٹوئٹر صارف صدیق نے لکھا کہ 'رشتہ ڈھونڈتے وقت لڑکے کا کردار اور اچھائی دیکھں 25 کی عمر میں ہر طرح سے سیٹ لڑکا دیکھنا چھوڑ دیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔'

 

شیئر: