Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر بیٹھ کر کیسے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟

لاک ڈاؤن کے دوران گھروں تک محدود رہ کر آن لائن کاروبار اور آمدن کے نئے ذرائع اپنائے جاسکتے ہیں، ایسے میں انٹرنیٹ ماہرین آن لائن تربیت فراہم کر رہے ہیں کہ کیسے یوٹیوب، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس کے ذریعے لاک ڈاؤن کی سختی کو کمائی میں بدلا جا سکتا ہے۔
پاکستانی عوام عادتاً خود جا کر خریداری کرنے کو فوقیت دیتے ہیں جس کی ایک وجہ آن لائن خریداری میں فراڈ بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کئی سالوں سے ای کامرس کے شعبے کی حیثیت ثانوی ہے۔
کورونا وائرس کے پیشِ نظر لاک ڈاؤن کی وجہ سے آن لائن خریداری کو یکایک بنیادی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
اس وقت تمام کاروباری ادارے، برانڈز، حتیٰ کہ بینکنگ سیکٹر بھی اپنی سروسز کی ترجیحی بنیادوں پر آن لائن فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں، وہ بھی بنا کسی اضافی چارجز کے۔
ویب ڈویلپر اور ڈجیٹل ایکسپرٹ فراز احمد کے مطابق حالیہ دنوں میں کچھ ٹیکنالوجی سے منسلک چیزیں ایسی ہیں جن کی طلب میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے اور اگر انہیں صحیح طریقے سے مارکیٹ کیا جائے تو لوگ گھر بیٹھے کمائی کر سکتے۔
فراز احمد نے ای کامرس کے ریسرچ ٹولز کی مدد سے چند اہم اشیاء کی فہرست مرتب کی ہے جن کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ یہ تمام اشیاء نہ صرف ویب سائٹ بلکہ فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے بھی فروخت کی جا سکتی ہیں۔ ان اشیاء کی فہرست کچھ یوں ہے۔
  1. کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اسیسریز، جیسے کے انٹرنیٹ راؤٹر، رینج ایکسٹینڈر، وڈیو کانفرنس اکویپمٹ
  2. آن لائن گیمنگ اسیسریز
  3. گھریلو استعمال خصوصاً بچوں کے کپڑے
  4. گھر کے اندر ورزش کرنے کا سامان
  5. بچوں کے لیے کھیل کود اور تفریح کا سامان
  6. سکیورٹی کا سامان، آئی پی کیمرے اور موشن ڈِٹیکٹرز وغیرہ
آج کل سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعے میڈیکل سامان اور  حفاظتی کٹس بھی فروخت کی جا رہی ہیں۔ وہ تمام کاروباری حضرات جو مارکیٹوں کی بندش کی وجہ سے مال نہیں فروخت کر پا رہے وہ آن لائن آکر کاروبار کر سکتے ہیں۔

یوٹیوب سے دو ماہ میں پیسے کمائے جا سکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

وہ دکاندار جو خود ٹیکنالوجی کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے وہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایجنٹس اور پروگرامرز کی مدد سے اپنا سامان فروخت کر سکتے ہیں۔
ڈجیٹل مارکیٹنگ پروفیشنل محسن ضیاء نے اردو نیوز کو بتایا کہ آن لائن کمائی کے لیے انٹرنیٹ ٹولز کی مہارت کی ضرورت نہیں، آپ جس بھی شعبےمیں مہارت اور قابلیت رکھتے ہیں، اس حوالے سے وڈیوز بنا کر اپنے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول 'لاک ڈاؤن کے دنوں میں گھروں تک محدود لوگ اپنا زیادہ وقت آن لائن رہ کر گزار رہے ایسے میں معلوماتی وڈیوز دیکھنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا آپ جس بھی کام کے ماہر ہیں اس کی معلوماتی وڈیوز بنا کر آن لائن اپلوڈ کر سکتے ہیں۔‘

گھر بیٹھ کر متعدد چیزیں خریدی اور بیچی جا سکتی ہیں (فوٹو: شٹرسٹاک)

محسن ضیاء کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص موبائل کے ذریعے باآسانی وڈیوز بنا سکتا ہے۔ ان کے مطابق گوگل کی شرائط کو سمجھا جائے تو کوئی بھی شخص محض دو ماہ میں یوٹیوب سے پیسے کمانا شروع کرسکتا ہے۔
اس حوالے سے فراز احمد نے بتایا کہ آن لائن کورسز لاک ڈاؤن کے دوران وقت کی ضرورت ہیں، اور بہت سے ادارے جنہیں ورک فرام ہوم کرنا پڑ رہا ہے انہیں اس حوالے سے تربیت اور معلومات نہیں، لہٰذا وہ اپنے ملازمین کو آن لائن کورسز اور لیکچر دلوا رہے ہیں۔
ان کے بقول یہ ویب ڈویلپرز اور پروگرامرز کے لیے موقع ہے کہ وہ ان کاموں کی انجام دہی کے لیے سافٹ وئیر بنائیں جو اب دفاتر میں نہیں ہو پا رہے۔
فراز احمد کا کہنا ہے کہ بہت سے سکول اب آن لائن کلاسز لے رہے ہیں ایسے میں کورس مینیجمینٹ سافٹ ویئرز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے علاوہ وہ تمام افراد جو دفتر کے بجائے گھر سے کام کر رہے ان کا کام مینیج کرنے کے لیے سافٹ وئیر چاہیے۔
'ای کامرس کی مانگ بڑھنے سے ویب ڈویلپمنٹ کی ضرورت بھی بڑھی ہے اور یہ وہ تمام کام ہیں جن سے گھر بیٹھے کمائی کی جاسکتی ہے۔'

پاکستان میں ای کامرس کا شعبہ ابھی تک اہمیت حاصل نہیں کر سکا (فوٹو: بونڈلیس ٹیکنالوجی)

حکومت نے لاک ڈاؤن میں مشروط نرمی کرتے ہوئے تمام ڈیلیوری سروسز کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ کورئیر کمپنیوں کی کیش آن ڈیلیوری سروس کو بروئے کار لاتے ہوئے کاروباری حضرات اپنا سامان لوگوں کے گھروں تک پہنچا سکتے ہیں۔
نوجوان انٹرپرینئور خضر صدیقی کا کہنا ہے کہ گھر تک محدود رہتے ہوئے ٹرانسلیشن، سی وی رائٹنگ اور یوٹیوب ویڈیوز وہ آسان ترین کام ہیں جن سے کمائی کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ متعدد موبائل سروس کمپنیوں نے بھی لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ اور کال پیکیجز سستے کر دیے ہیں جس سے انٹرنیٹ کے استعمال اور اس کے ذریعے روزگار حاصل کرنے میں آسانی ہو پائے گی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: