Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وہ تصویریں کھینچتی ہے، پستول نہیں چلاتی‘

سوشل میڈیا صارفین کشمیری صحافی کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے آزادی اظہار رائے کا مطالبہ کررہے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی نوجوان فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انڈین حکومت کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسرت زہرا پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس کے ذریعے کشمیریوں کو انڈین حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اکسایا ہے۔
18 اپریل کو مسرت نے اپنی ایک ٹویٹ میں ایک کشمیری خاتون کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 'عارفہ جان کو اس وقت سے شدید گھبراہٹ کے دورے پڑتے ہیں جب 2000 میں ان کے شوہر کو انڈیا کے فوجی اہلکاروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔'
انہوں نے کشمیری خاتون کے بارے میں بتایا کہ 'جب وہ اپنے شوہر کے بارے میں سوچتی ہیں تو انہیں آج بھی گولی چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور اپنے شوہر کا خون سے تر جسم ان کے سامنے آجاتا ہے۔'

مسرت زہرا نے اخبار کے تراشوں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ عارفہ جان نے وہ اخبار کے تراشے اور  خون سے آلودہ کچھ کاغذ سنبھال رکھے ہیں جو ان کے شوہر عبدالقدیر خان کے پاس تھے جب انہیں انڈین فوج کے اہلکاروں نے دہشتگرد سمجھ کر ہلاک کر دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس وقت ہیش ٹیگ IStandWithMusaratZahra# ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس میں سوشل میڈیا صارفین کشمیری صحافی کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے آزادی اظہار رائے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ادیتیا مینن نامی صارف نے لکھا کہ مسرت زہرا ایک بہادر اور ایمان دار صحافی ہیں۔ ان پر لگائی گئی دفعات بزدلی اور ان لوگوں کو دبانے کی ایک کوشش ہے جو کشمیر کے حقائق سامنے لا رہے ہیں۔

ایک اور صارف ماہ رخ نے مسرت زہرا اور گنگولی رناوت کی ٹویٹس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ایک صحافی پر غیرقانونی سرگرمیوں کے تحت مقدمہ درج ہوسکتا ہے تو دوسری خاتون موت کی سزا سے کم کی حق دار نہیں ہیں۔

سدرہ نامی صارف نے لکھا کہ 'صحافیوں کو ڈرانا بند کریں، سچ بولنے کو جرم باننا بند کریں، مسرت زہرا کشمیر میں ظلم کی کہانیاں سامنے لاتی ہیں۔ ان کے خلاف دفعات ختم کی جائیں.'

کائیشر کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا کہ 'وہ تصویریں کھینچتی ہے، پستول نہیں چلاتی۔'
   

ایک اور صارف مائرہ مہراج  نے لکھا کہ 'اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آنکھیں رکھیں مگر دیکھیں مت، رائے رکھ سکتے ہیں لیکن اظہار نہیں کرسکتے۔'

شیئر: