Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: آبادیوں سے سوشل میڈیا تک مذہبی منافرت کا مظاہرہ

انڈین وزیراعظم نے کہا ہے کہ وائرس نہ کوئی رنگ اور نہ مذہب ہے۔ فوٹو: روئٹرز
انڈیا میں جاری لاک ڈاؤن میں مذہبی منافرت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اگر ایک طرف یہ زمینی سطح پر دیکھا جا رہا ہے تو اس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی نظر آ رہا ہے۔
گذشتہ دنوں انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں ایک ہجوم نے تین لوگوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جس کی بازگزشت ابھی تک سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔

 

مہاراشٹر میں پالگھر کی پولیس نے کہا ہے کہ اس معاملے میں 110 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیاہے جن میں نو افراد نابالغ ہیں۔ 101 افراد کو 30 تاریخ تک پولیس کسٹڈی میں رکھا گیا ہے جبکہ نو افراد کو بچوں کے اصلاحی مراکز بھیج دیا گیا ہے۔
اپنے ٹویٹ میں پولیس نے کہا ہے کہ جانچ جاری ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر سوموار کی صبح ’پالگھر ماب لنچنگ‘ پہلے نمبر پر ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس میں یہ کہا جا رہا ہے  کہ اس میں مرنے والے چونکہ ہندو سادھو تھے اس لیے میڈیا خاموش ہے۔
مہاراشٹر کے سی ایم او نے اپنے ٹویٹ میں اس سے قبل ہی وضاحت کر دی ہے کہ پالگھر میں فوری طور پر ایکشن لیا گیا ہے۔ پولیس نے دو سادھوؤں اور ایک ڈرائیور کو مارے جانے والے دن ہی تمام ملزمان کو پکڑ لیا ہے۔
یہ واقعہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کا ہے اور حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کے متعلق اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب وبائی مرض کورونا کے تعلق سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور شاید اسی لیے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو ملک کے جوانوں سے ملک میں اتحاد قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔
خبررساں ادارے اے این آئی نے وزیر اعظم کے حوالے سے ٹویٹ کیا ہے کہ ’کووڈ حملہ کرنے سے پہلے نہ کوئی نسل دیکھتا ہے نہ مذہب، نہ رنگ، نہ ذات، نہ عقیدہ، نہ زبان یا سرحد دیکھتا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف ہمارا بنیادی رویہ اتحاد اور بھائی چارے کا ہونا چاہیے۔ ہم اس میں ساتھ ساتھ ہیں۔‘
انڈیا میں جاری مسلم مخالفت پر عرب کے دانشوروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دی ملی کرانیکل میں شائع ایک خبر کے مطابق مشرق وسطی کے دانشوروں نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف منافرت میں اضافہ ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔
 ڈاکٹر عبداللہ الشریکہ نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری بہیمانہ تشدد کا نتیجہ مسلم ممالک میں انڈیا کے سامانوں کا بائیکاٹ ہو سکتا ہے۔‘
دوسری جانب عبدالرحمن النصار نامی ایک ٹوئٹر صارف اس معاملے میں بہت پیش پیش نظر آئے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’ہر سال خلیجی ممالک سے انڈیا 55 ارب ڈالر منتقل کیے جاتے ہیں اور تمام مسلم ممالک سے سالانہ 120 ارب ڈالر منتقل کیے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں ہندوستانیوں (زیادہ تر ہندوؤں) کے ساتھ اچھا سلوک ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں مسلمانوں کے ساتھ انڈیا میں کیسا سلوک ہوتا ہے؟‘
دریں اثنا انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعدا ساڑھے 17 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد ساڑے پانچ سو سے زیادہ ہو چکی ہے۔

شیئر: