Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان میں سمارٹ لاک ڈاؤن فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے؟

حکومت نے ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر چند صنعتوں کو بحال کرنے کی اجازت دی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت پاکستان نے 24 اپریل کو سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے ہوئے متعدد صنعتوں اور مختلف شعبوں کو احتیاطی تدابیر اور خصوصی ضابطہ کار کے ساتھ کاروبار کھولنے کی اجازت دی تھی۔
24 اپریل سے اب تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں سو فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دو ہفتے قبل پاکستان میں 11 ہزار 700 کیسز تھے جو کہ ساڑھے 22 ہزار سے تجاوز کر گئے ہیں، ایسی ہی صورتحال ملک میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
24 اپریل تک پاکستان میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 248  تھی اور اب یہ تعداد بڑھ کر 526 تک پہنچ چکی ہے۔
کورونا وائرس کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کے باعث کس حد تک کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین بھی حکومت کو لاک ڈاؤن میں نرمی نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
لیکن حکومت کی جانب سے ملکی معاشی صورتحال اور عام آدمی کے مسائل کے پیش نظر چند صنعتوں اور کاروباری شعبوں کو بحال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کتنا مفید ثابت ہوا اردو نیوز نے یہ جاننے کے لیے چند صنعتکاروں سے گفتگو کی۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر میاں انجم نثار نے اردو نیوز کو بتایا  ایک ماہ کاروبار بند ہونے سے 25 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے اور کچھ شعبوں کو کھولنے سے صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔
 ’ایک مہینے میں 25 بلین ڈالرز کی لین دین کی جاتی ہے جو کہ ڈیڑھ ماہ سے بند ہے اس سے  نقصان کا اندازہ لگا لیں جبکہ حکومت کی برآمدات میں 53 فیصد کمی آئی یے۔‘

حکومت پاکستان نے 24 اپریل کو سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

میاں انجم نثار نے کہا کہ ’ اب تک جتنے کاروبار کو کھولنے کی اجازت دی گئی ہے وہاں بھی حکومت ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہے، حکومت بجائے کاروبار بند کروانے کے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔‘
پاکستان کے معروف صنعتکار اور سابق چیئرمین سندھ سرمایہ کاری بورڈ زبیر موتی والا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے برآمدی شعبوں کو ضابطہ کار کے تحت کام کرنے کی اجازت دی لیکن وہ ضابطہ کار اس قدر مشکل ہیں کہ چند صنعت کار ہی کاروبار کھولنے کی ہمت کریں گے۔
’حکومت صنعتکاروں سے بیان حلفی لے رہی ہے کہ کوئی کورونا کا مریض فیکٹری میں آیا تو تمام ملازمین کا کورنا ٹیسٹ کروانا مالکان کی ذمہ داری ہوگی اور فیکٹری بھی بند کر دی جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایک فیکٹری میں ہزاروں افراد کام کر رہے ہوتے ہیں اور ایک ٹیسٹ کی فیس ہزار تک ہے اگر ایک ہزار ملازمین کا ٹیسٹ مالکان کو کروانا پڑ گیا تو مالی مشکلات مزید بڑھیں گی۔

پاکستان میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد  526 تک پہنچ چکی ہے (فوٹو: روئٹرز)

زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ صنعت کار حکومت کی ضابطہ کار پر عملدرآمد کرنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن اس طرح کا بیان حلفی لینا نامناسب ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر میاں انجم نثار نے  کہا کہ حکومت نے چند شعبوں کو کھولنے کی اجازت تو دی ہے لیکن جب تک مکمل چین نہیں کھلا جائے گا صنعت کاروں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔
جیسے کہ سیمنٹ انڈسٹری کھول دی گئی ہے لیکن سریے کا کام بند ہے تو تعمیراتی شعبہ کیسے چلے گا؟ حکومت کو چاہیے کہ جس شعبے کے کاروبار کو کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے اس کو مکمل کھولا جائے تاکہ صنعت کاروں کو فائدہ حاصل ہو۔

شیئر:

متعلقہ خبریں