Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زچہ بچہ وارڈز بند، اگلی نسل بھی کورونا کی زد میں

کورونا کی وبا نہ صرف موجودہ انسانی نسل کے لیے خطرہ ہے بلکہ آنے والی نسل بھی اس وبا کی زد میں آ گئی ہے۔
پاکستان بھر میں حاملہ خواتین کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ نہ صرف گائنی کے متعدد پرائیویٹ کلینکس بند ہو چکے ہیں بلکہ اسلام آباد کے پمز، اور پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال سمیت متعدد سرکاری ہسپتالوں کے زچہ بچہ وارڈز بھی ڈاکٹروں میں کورونا کی تشخیص کے بعد بند کر دیے گئے ہیں۔
 ایسے میں نہ صرف نومولود بچوں بلکہ ان کی ماؤں کی زندگیاں بھی خطرے سے دوچار ہو گئی ہیں۔ اسی طرح متعدد سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے آوٹ پیشنٹس ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈیز) بند ہونے کے باعث حاملہ خواتین روٹین کا چیک اپ بھی نہیں کروا پا رہیں جبکہ کئی سرکاری ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے وارڈز اور زچگی وارڈز قریب ہونے کے باعث بھی حاملہ خواتین کورونا وائرس کی بیماری لگنے کے خدشے کا شکار ہیں۔

 

اسلام آباد میں پمز کا زچہ بچہ ہسپتال بند، دو سو ڈاکٹرز طبی عملہ کے ٹیسٹ
منگل کو اسلام آباد کے  پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے مدر چائلڈ ہسپتال (ایم سی ایچ) میں کام کرنے والے ڈاکٹروں میں کورونا کی تشخیص کے بعد اسے مریضوں کے لیے بند کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ایم سی ایچ کی ڈاکٹر ثروت نے دعویٰ کیا کہ تین دن قبل ان کی ساتھی ڈاکٹر کو کورونا ہوا تھا اور منگل کی صبح ان کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا ہے جس کے بعد ہسپتال کو بند کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو اس سے قبل درخواست کی گئی تھی کہ ایک بچے کا کورونا مثبت آیا ہے اس وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کو سیل کیا جائے مگر انتظامیہ نے بات نہیں سنی۔
ہسپتال کے ایک ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایم سی ایچ کے بند ہونے کی تصدیق کی۔ ایم سی ایچ میں اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں سے درجنوں حاملہ خواتین کو ڈیلیوریز کے لیے لایا جاتا ہے۔ اس کے بند ہونے سے یہ تمام خواتین علاج کی سہولیات سے محروم ہو جائیں گی۔  
 اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایم سی ایچ کی ڈاکٹر مریم نے بتایا کہ روزانہ یہاں پر 30 سے 40 بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایم سی ایچ میں کام کرنے والے دو سو کے قریب ڈاکٹرز اور طبی عملہ کے کورونا ٹیسٹ منگل کو کیے گئے اور ڈیپارٹمنٹ کو ایک ھفتے کے لیے سیل کر دیا گیا ہے۔

 راولپنڈی کے ہسپتالوں میں آئیسولیشن  وارڈ اور نوزا ئیدہ بچوں کے وارڈز ساتھ ساتھ ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ٹیسٹ کے بعد جن ڈاکٹرز کے ٹیسٹ مثبت آئیں گے ان کو آئسولیٹ کر کے باقی ڈاکٹرز ڈیوٹی پر واپس آئیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ایم سی ایچ میں کام کرنے والی ڈاکٹرز کو پی پی ای تو درکنار نارمل ماسک اور گلوز تک مہیا نہیں کیے گئے تھے اور یہاں آنے والے مریضوں کی سکریننگ کا کوئی انتظام نہیں تھا جس کی وجہ سے مریضوں سے ڈاکٹرز کو کورونا منتقل ہونے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔
انہوں نےانتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ہسپتال دوبارہ کھلنے پر ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حفاظتی کِٹس دی جائیں اور مریضوں کی سکریننگ کی جائے اور صرف ضروری مریضوں کو داخل کیا جائے۔
اسلام آباد سے ہی ملحقہ جڑواں شہر راولپنڈی کے ہسپتالوں میں آئیسولیشن  وارڈ اور نوزا ئیدہ بچوں کےوارڈز ساتھ ساتھ ہیں۔
سامن طارق کے ہاں چند روز قبل بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ سامن نے اُردو نیوز کی نمائندہ نازش فیض سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بیٹے کی پیدائش سے کچھ روز قبل ہسپتال معمول کے معائنے کے لیے گئی تھیں۔ جب اُن کو اس بات کا علم ہوا کہ اُس ہسپتال میں بڑی تعداد میں کورونا کے مریض موجود ہے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گائنی کے شعبے کو بھی وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے بند کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اُنھوں نے بتایا کہ وہ اُس وقت پریشان ہو گئی جن اُنھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بچوں کی نرسری اور کورونا کے مریضوں کے لیے بنائی گئی آیسولیشن وارڈ ساتھ ساتھ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ بچوں اور کورونا کے مریضوں کو اسی چھوٹی سی گلی میں سے ہی گزار جاتا ہے۔ سامن نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی لیڈی ڈاکڑ کو اس بارے میں آگاہ کیا مگر اُنھوں نے یہ بول کر ٹال دیا کہ یہاں وہ مریض رکھے جاتے ہیں، جب کے ٹیسٹ کا رزلٹ نہیں آیا ہوتا۔
سامن نے اُردو نیوز کو مزید بتایا کہ اُن کے بچے کی پیدائش کے ہفتے بعد اُس کی وفات ہوگئی۔ اُس کو ایک ہفتے کے لیے نرسری میں رکھا گیا تھا۔ تاہم ایک روز ہسپتال سے فون آیا کہ بیٹے کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ اُن کو نمونیہ ہو گیا ہے۔ اور اُس کا ایک گردہ بھی فیل ہو گیا ہے۔
سامن نے کہا کہ اُن کے بیٹے کے بے شمار ٹیسٹ کیے گے مگر اُن کو یہ لگتا ہے کہ اُن کے بیٹے کو بھی کورونا تھا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا شعبہ گائنی بند
پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتال کے گائنی یونٹ کے 35 ڈاکٹروں, نرسوں اور دیگر سٹاف کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے پر اسے منگل سے دو ھفتوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر پروفیسر ڈاکٹر عبداللطیف خان کی جانب سے صوبائی سیکرٹری صحت امتیاز حسین شاہ کو ایک بھی خط لکھا گیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ 'ہمارا سٹاف مستقل طور پر کورونا وائرس کا سامنا کر رہا ہے اور اس شعبے کے کئی ارکان وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔

لاہور میں گائنی کے مریضوں ممکنہ کورونا وائرس کے لیے گنگا رام ہسپتال کو مختص کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے شعبہ گائنی میں آنے والوں سے گزارش کی ہے کہ وہ اس عرصے کے دوران دیگر قریبی ہسپتالوں سے رجوع کریں۔  
لاہور میں گائنی وارڈ میں کورونا مگر ڈاکٹرز کا کام جاری
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں محکمہ صحت نے گائنی کے مریضوں ممکنہ کورونا وائرس کے لیے گنگا رام ہسپتال کو مختص کیا ہے۔
ہسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر اویس اقبال کے مطابق ’اس وقت گنگا رام کے کورونا کے لئے مختص گائنی وارڈ میں 9 ایسے مریض ہیں جن میں کورونا کی علامات کا شبہ کچھ نتائج مثبت آئے ہیں اور کچھ کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔‘
ڈاکٹر اویس نے بتایا کہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں گائنی کے مریضوں کے آپریشن اور دیگر صحت کی سہولتیں روٹین کے مطابق فراہم کی جا رہی ہیں۔ کسی بھی ہسپتال میں اگر کوئی بھی گائنی کی مریض میں کورونا کا شبہ ہو تو انہیں گنگا رام منتقل کر دیا جاتا ہے۔
’یہاں ایک علیحدہ حصہ ایسے مریضوں کے لئے مختص ہے جس کو گائنی کورونا وارڈ ڈیکلیئر کیا جا چکا ہے۔ جبکہ تمام ڈاکٹرز اور نرسوں کو حفاظتی لباس بھی مہیا ہیں البتہ یہ سارے لباس حکومت نے فراہم نہیں کئے اس میں زیادہ تر ڈوونرز کی طرف سے آئے ہیں۔‘
گنگارام ہسپتال کے علاوہ صوبائی دارلحکومت کے تقریبا تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں ایمرجنسیز میں گائنی کے مریضوں کو روٹین کے مطابق ہی داخل کیا جا رہا ہے البتہ سماجی فاصلے اور دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جا رہی ہیں۔

کراچی میں سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی تو بند ہیں البتہ حاملہ خواتین کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر اویس کے مطابق ابھی تک کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا کہ کسی گائنی کے وارڈ میں کام کرنے والی نرس یا ڈاکٹر کو کورونا کی بیماری لاحق ہوئی ہو۔
کراچی میں آپریشن سے پہلے ماؤں کا کورونا ٹیسٹ
کراچی کے ہسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز میں ڈیلوری کے کیسز معمول کے مطابق ہو رہے ہیں البتہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو آمد و رفت اور دواؤں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی تو بند ہیں، البتہ حاملہ خواتین کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں قائم میٹرنٹی ہومز بھی فنکشنل ہیں۔
لیاقت نیشنل ہسپتال کے ترجمان انجم رضوی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کورونا کی وجہ سے گائینی وارڈ پہ اضافی دباؤ تو نہیں پڑا، مریضوں کا تناسب وہی ہے جو عام حالات میں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین کے چیک اپ معمول کے مطابق ہو رہے ہیں، البتہ جب آپریشن کی باری آتی ہے تو مریضہ کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔
انجم رضوی کا بتایا کہ کورونا وائرس کے باوجود گائینی وارڈ کے فنکشن میں کوئی رکاوٹ نہیں برتی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے لوگ خود ہی ہسپتال آنے میں محتاط ہو گئے ہیں اور نہایت ضرورت میں ہی ہسپتال کا رخ کرتے جس کی وجہ سے ہسپتال پہ اضافی دباؤ نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گائینی وارڈ میں کام کرنے والے تمام عملے بشمول ڈاکٹرز کا باقاعدگی سے کورونا ٹیسٹ کروایا جا رہا ہے، اور اگر کسی کا ٹیسٹ مثبت آئے تو اسے آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے۔

ہسپتال سے منسلک سٹورز پہ متعدد دوائیاں دستیاب نہیں ہوتیں۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی رہائشی خاتون جنہوں نے چند روز قبل آغا خان ہسپتال میں بچے کو جنم دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں رش پہلے کی نسبت کم تھا کیوں کہ صرف انتہائی ضرورت کے مریضوں کو ہی ہسپتال بلایا جا رہا تھا جبکہ معمول کے چیک اپ آن کال کیے جا رہے تھے، اور او پی ڈی بھی بند ہے جس کی وجہ سے ہسپتال میں مریضوں کی آمد معمول سے کم ہی ہے۔
تاہم ایک اور مریضہ کے اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے میڈیکل سٹورز بند ہو جاتے ہیں اور ہسپتال سے منسلک سٹورز پہ متعدد دوائیاں دستیاب نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے۔ کراچی کے بیشتر بڑے میڈیکل سٹورز کسی ہسپتال کے ساتھ نہیں جس کی وجہ سے وہ شام میں بند ہو جاتے ہیں۔
کراچی کے مضافات کے گوٹھ میں کام کرنے والی دائی مہرالنساء نے اردو نیوز کو بتایا کہ پہلے وہ 5-10 حاملہ خواتین کو ایک جگہ اکھٹا کر کے انہیں معلومات اور آگہی دیتی تھیں مگر کورونا کہ وجہ سے اب وہ علیحدہ سے ہر ایک کے گھر جاتی ہیں جس میں سماجی فاصلے اور حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا جاتا۔ اور وہ حاملہ خواتین کو بھی میل جول میں اجتناب برتنے کا کہتی ہیں۔
بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈیلیوری کیسز میں 50 فیصد اضافہ
بلوچستان میں حاملہ خواتین مشکلات کا شکار ہیں۔ کوئٹہ سے اردو نیوز کے نمائندے زین الدین کے مطابق صوبے بھر سے حاملہ خواتین کو دوران زچگی پیچیدگی کی صورت میں کوئٹہ لایا جاتا ہےمگر کوئٹہ میں سوائے پانچ فیصد کلینکس کے اس وقت تمام پرائیویٹ کلینک بند ہیں۔

بولان میڈیکل ہسپتال کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی کورونا وائرس کی شکار ہوئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اس صورتحال میں کوئٹہ کے دو سرکاری ہسپتالوں بولان میڈیکل ہسپتال اور سول ہسپتال میں ڈیلیوری کیسز میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو نارمل چیک اپ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
سول ہسپتال میں کورونا کی ایک مریضہ کا دوران آپریشن انتقال ہوا۔ کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر حنیف لونی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سول ہسپتال کی چار ڈاکٹرز کو  گائنی وارڈ سے وائرس منقل ہوا ہے۔
اس کے علاوہ بولان میڈیکل ہسپتال کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی کورونا وائرس کی شکار ہوئی ہیں۔ اس ہسپتال میں روزانہ 10 آپریشن ہوتے تھے اب 20 کے قریب ہوتے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں