Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو ٹرینوں کی کہانی

انڈین معیشت کو اتنا بھاری نقصان ہو چکا ہے کہ گاڑی کو پٹری پر واپس لانے میں برسوں لگ جائیں گے (فوٹو: سوشل میڈیا)
کوروناوائرس کی اگر کبھی تاریخ لکھی گئی تو دو باتوں کا ذکر ضرور ہوگا۔ ایک یہ کہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی کہ دنیا کی حکومتوں سے بھی چالاک اس وائرس نے امیر اور غریب میں فرق نہیں کیا اور دوسری یہ کہ انڈیا میں غریبوں کی زندگی کی قیمت لگانے کا کوئی قابل بھروسہ فارمولا موجود نہیں ہے۔
اگر ہوتا تو امیروں اور غریبوں کے لیے الگ الگ ٹرینیں نہ چلائی جاتیں۔
لیکن زندگی کے مول اور ووٹ کے وزن میں کنفیوز مت ہو جائیے گا۔ دونوں بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ایک کا تعلق جمہوریت سے ہے جسے مضبوط کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
آپ کو براہ راست فائدہ ہو یا نہ ہو، اور دوسرے کا تعلق انسانیت سے ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہونا نہیں چاہیے۔
مثال کے طور پر سب کی جان کی قیمت برابر ہونی چاہیے لیکن جب سب کا قد برابر نہیں ہوتا، رنگ اور چہرہ مہرہ یکساں نہیں ہوتا ہے، تعلیم اور ذہانت الگ الگ ہوتی ہے تو پورے پیکج کی قیمت برابر کیسے ہوسکتی ہے؟
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غریبوں کے ووٹ کا وزن کسی امیر آدمی کے ووٹ سے کم ہے۔ ہاں، یہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران امیر پکنک مناتے رہے اور حکومت غریبوں سے سوشل ڈسٹنسنگ کرتی رہی (فوٹو: سوشل میڈیا)

انتخابات جتنا قریب ہوں، غریبوں کے ووٹ کی ویلیو اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ حکومت کو اس بات کی خبر ہے اور باخبر حکومتیں ایسی بیش قیمت معلومات کی بنیاد پر ہی پالیسیاں وضع کرتی ہیں۔ اس لیے کبھی کبھی ایسی پالیسیاں نظر آتی ہیں جن کے سر پیر کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
تو جناب کسی عظیم دانشور کے مشورے پر پہلے ملک میں تقریباً دو مہینے کے لیے تالا ڈال دیا گیا۔ اس دوران امیر پکنک مناتے رہے اور حکومت غریبوں سے سوشل ڈسٹنسنگ کرتی رہی۔
سوا ارب لوگوں کو گھروں میں بند رکھنے کے بعد حکومت پر کسی دوسرے دانشور نے یہ راز افشا کر دیا ہے کہ کورونا وائرس اب آ گیا ہے تو آسانی سے جائے گا نہیں اس لیے گھر میں بیٹھ کر اس کے لوٹ جانے کا انتظار کرنا فضول ہے۔
معیشت کو اتنا بھاری نقصان ہو چکا ہے کہ گاڑی کو پٹری پر واپس لانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ اس لیے اب مزید تاخیر کیے بغیر زندگی کو معمول پر لوٹانے کی تدابیر کیجیے۔
حکومتیں تو آپ کو معلوم ہی ہے کتنی سیدھی سادی ہوتی ہیں۔ ہمیشہ بس یہ سوچتی رہتی ہیں کہ اپنی عوام کو کس طرح فیض پہنچایا جائے۔ اس لیے جیسے ہی سنا کہ گاڑی پٹری پر واپس لانے کا وقت آگیا ہے تو بس پلک جھپکتے ہی ریل گاڑیاں چلانے کا اعلان کر دیا۔
منگل سے تقریباً دو مہینے (کچھ دن ادھر یا ادھر) بعد دہلی سے پندرہ ٹرینیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ جیب میں پیسے اور کنفرمڈ ٹکٹ ہو تو ان میں جو چاہے سفر کر سکتا ہے۔

سوا ارب لوگوں کو گھروں میں بند رکھنے کے بعد حکومت پر کسی دانشور نے یہ راز افشا کر دیا کہ کورونا وائرس آسانی سے نہیں جائے گا (فوٹو: سوشل میڈیا)

بس کوروناوائرس کی کوئی بظاہر علامت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس وہ بیسوں لاکھ مزدور ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں مائگرینٹ کیمپوں میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہے تھے کیونکہ حکومت نے ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رکھی تھی۔
ڈر تھا کہ کہیں وہ دور دراز دیہی علاقوں میں واقع اپنے گھروں تک کورونا وائرس نہ پہنچا دیں۔
بہت لعنت ملامت کے بعد ان کے لیے بھی مزدور سپیشل ٹرینیں چلائی گئیں لیکن ان گاڑیوں میں سفر کرنے کے لیے شرائط کی ایک لمبی فہرست بھی جاری کی گئی جیسے یہ لوگ اپنے گاؤں نہیں بیرون ملک جانے کی ضد کر رہے ہوں۔
شرائط کچھ اتنی سخت تھیں کہ بہت سے لوگوں نے بیچ میں ہی ہتھیار ڈال دیے، سوچا کہ اس سے بہتر تو پیدل ہی چلتے ہیں، کبھی نہ کبھی پہنچ ہی جائیں گے، ہم سے پہلے بھی لاکھوں لوگ یہ سفر کر چکے ہیں۔
ان میں سے 16 راستے میں تھک ہار کر ٹرین کی پٹری پر ہی سو گئے اور اب کبھی نہیں اٹھیں گے۔ ’ممبئی مرر‘ اخبار نے ان کی موت کی خبر کی سرخی کچھ یوں لگائی: ’سوری وی ہیو رن آؤٹ آف ورڈز ٹوڈے۔‘ ( معاف کیجیے گا آج ہمارے پاس الفاظ باقی نہیں)۔ بس یہ ہی ان مزدوروں کی کہانی ہے۔
کرناٹک کی حکومت نے الگ ہی کارنامہ انجام دیا۔ پہلے کہا کہ مزدوروں کو واپس لے جانے کے لیے ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ لیکن جب کنسٹرکشن لابی نے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھر لوٹ جائیں گے تو ہمارے پراجیکٹوں پر کام کون کرے گا تو ٹرینیں کینسل کر دی گئیں۔
جیسے یہ لوگ مزدور نہیں غلام ہوں جو خود یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکتے کہ وہ گھر جائیں کہ نہیں۔

انڈیا میں مزدور سپیشل ٹرینوں میں سفر کے لیے شرائط کی ایک لمبی فہرست بھی جاری کی گئی (فوٹو: سوشل میڈیا)

ویسے یہ مزدوروں کی بھی غلط بات ہے، تھوڑا شرم لحاظ تو انہیں بھی کرنا چاہیے۔ عزت انہیں لوگوں کی ہوتی ہے جو وقت ضرورت دوسروں کے کام آتے ہیں۔
یہ بلڈر بھی ان کے کام ضرور آتے لیکن لاک ڈاؤن میں سب کو اپنی پڑی تھی اور پھر غریب آدمی کو تو ویسے بھی بھوکا رہنے کی عادت ہوتی ہے، ساری زندگی مشکل میں گزارتے ہیں لیکن وبا کے دوران انہیں آرام بھی چاہیے اور تنخواہ بھی۔
گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کے لیے بھی غیرمعمولی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ وہ کام پر لوٹ تو سکتی ہیں لیکن ایک سے زیادہ گھر میں کام نہیں کرسکتیں۔
لیکن یہ عورتیں بہت معمولی رقم کے لیے اکثر تین چار گھروں میں کام کرتی ہیں، اگر صرف ایک گھر میں کام کریں گی تو باقی لوگ انہیں تنخواہ کیوں دیں گے؟ اور اگر ان کی آمدنی تہائی یا چوتھائی رہ جائے گی تو ان کا گزارا کیسے ہوگا؟
جب چار سال پہلے ملک میں بڑے کرنسی نوٹ بند کیے گئے تھے تب بھی سب سے بڑی قیمت انہیں لوگوں نے ادا کی تھی جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا وہ سمجھتے رہے کہ امیروں سے آخرکار کوئی حساب لے رہا ہے اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔
لیکن امیر اگر اتنے ہی بے وقوف ہوتے اور ان سے حساب لینا اتنا ہی آسان ہوتا تو وہ امیر کیوں ہوتے؟

اکثر مشکل وقت میں لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں لیکن اس وبا سے فاصلے بڑھے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

بہرحال، اب حکومت نے آخرکار وہ کہہ دیا ہے جو کچھ لوگ پہلے سے کہہ رہے تھے اور وہ یہ کہ ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنا ہوگی۔
یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اب لاک ڈاؤن تیزی سے ختم کیا جائے گا اور وائرس کے خلاف جس ملک گیر جنگ کا اعلان کیا گیا تھا وہ صرف حسب ضرورت ہاٹ سپاٹس میں لڑی جائے گی یعنی ان علاقوں میں جہاں وائرس کا زور زیادہ ہوگا۔
اکثر مشکل وقت میں لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں لیکن اس وبا سے فاصلے بڑھے ہیں۔ مذہبی منافرت بھی بڑھی ہے اور امیر غریب کا فرق بھی۔ اور اکثر ایسا لگتا ہے کہ جو جنگ ایک بیماری کے خلاف چھیڑی گئی تھی اس کا نشانہ اب بیمار بن گئے ہیں۔
کورنا وائرس سے بے پناہ معاشرتی اور اقتصادی نقصان ہوا ہے لیکن اگر اس جنگ سے واقعی حکومت کو یہ سبق ملا ہے کہ ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے تو یہ اچھی خبر ہے۔ لیکن صرف وائرس کے ساتھ نہیں۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں