Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اندرون ملک پروازوں کی اجازت مگر احتیاطی تدابیر کے بغیر

ایسی فلمیں تو بہت دیکھی ہیں جن میں ایپوکلپس آ رہا ہوتا ہے یا آ چکا ہوتا ہے اور ہماری زمین جو کہ اربوں لوگوں کا گھر ہے اگر کبھی خالی نظر آئی تو خوف تو طاری ہوگا کہ یہ سب لوگ کہاں چلے گئے آخر؟
جب سے کورونا کی وبا پھوٹی ہے بہت سے ملکوں میں ہزاروں لوگوں نے ایسے مناظر کی گواہی دی اور کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دو ماہ بعد اتوار 17 مئی کو جب پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوائی سفر کی اجازت دی گئی تو کچھ ایسے ہی مناظر ایک بار پھر دیکھنے کو ملے۔
کہنے کو تو حکومت نے ایس او پیز کے ساتھ لاک ڈاؤن میں نرمی کی ہے مگر غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ جب تمام لوگ گھروں پر ہی ہیں تو آخر کون ہے جو یہ دیکھ رہا ہے کہ ایس او پیز پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں؟
اسلام آباد ایئرپورٹ پر گاڑی سے اترنے سے لے کر داخل ہونے تک، صرف ایک شخص تھا جو اندر جاتے ہوئے ٹکٹ چیک کر رہا تھا۔ اندر جا کر لگ رہا تھا جیسے کسی سوئے ہوئے فتنے کو جگا دیا ہو۔
کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر میں جو ٹمپریچر چیک کرنے کا ایس او پی تھا اس کا ذمہ دار کوئی نہیں تھا اور مجھے تو ایسے ہی جانے دیا۔ جب پوچھا بھی کہ ٹمپریچر کیوں نہیں چیک کر رہے تو کہنے لگے ’کوئی بات نہیں آپ جائیں‘ تو میں چلی تو گئی لیکن وہ خیال وہیں تھا کہ جب تک سرکاری سطح پر ایس او پیز کو فالو کرنے کی سنجیدگی نہیں ہو گی تب تک عوام سے کیا توقع؟
عموماً ایئر پورٹ پر سامان کی چیکنگ کے مرحلے سے گزرنے کے بعد سکیورٹی پر تعینات خواتین اہلکار عورتوں کی چیکنگ کرتی ہیں لیکن یہ دیکھ کر کچھ تسلی ہوئی کہ اس روایت پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔

کراچی ایئرپورٹ پر مسافروں کا باقاعدہ ٹمپریچر چیک کیا جا رہا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن حیرانی اس بات کی تھی کہ اس کے متبادل کے طور پر کوئی سکیورٹی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، یعنی کوئی بھی شخص آسانی سے غیرقانونی چیز چھپا کر لے جا سکتا ہے۔
 بورڈنگ پاس لیتے وقت ایئرپورٹ حکام نے ایک فارم پُر کروایا جو کورونا کے حوالے سے تھا۔ اس میں ٹریول ہسٹری اور بیماری کی علامات سے متعلقہ معلومات حاصل کی گئیں۔
جیسے ہی ہم ویٹنگ لاؤنج کی طرف گئے تو نظارہ ویسا ہی لگ رہا تھا جیسے پہلے ہوا کرتا تھا۔ لوگ اسی طرح قریب قریب بیٹھے تھے اور بورڈنگ کی لائن میں بھی اسی طرح رش تھا جس طرح ہر پاکستانی مارکیٹ یا عوامی مقام پر ہوتا ہے۔

جہاز کی نصف کے بجائے ایک چوتھائی نشستوں ہر مسافر موجود تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

صرف فلائٹ کے دو ارکان تھے جو لوگوں کو جہاز میں بٹھانے میں اتنے مصروف تھے کہ کون کتنا قریب ہے اس کا گمان انہیں نہ تھا اور ایک سول ایوی ایشن کا افسر تھا جو کورونا کا فارم لوگوں سے واپس جمع کر رہا تھا۔
حکومتی ہدایات کے مطابق تو ایئرپورٹ اور ایئرلائنز نے اپنی طرف سے ویٹنگ لاؤنج سیٹس محدود کی تھیں اور فرش پر دور دور کھڑے ہونے کے لیے لائنز بھی لگائی گئی تھیں۔
جہاز میں عالمی ادارہ صحت کی پالیسی کے مطابق ایئرہوسٹسز نے باقاعدہ طور پر حفاظتی لباس اور چہرے پر ماسک پہن رکھے تھے جبکہ دو لوگوں کے بیچ ایک سیٹ خالی چھوڑی گئی تھی۔

کراچی ایئرپورٹ پہنچتے ہی حقیقی لاک ڈاؤن کا احساس ہوا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ویسے تو حکومتی ایس او پیز کے مطابق 50 فیصد جہاز خالی ہونا چاہیے، مگر ڈومیسٹک جہاز میں ایک لائن میں چھ سیٹس ہوتی ہیں اور اگر چھ میں سے چار سیٹس بھری ہوئی ہیں تو اس کا مطلب ہے جہاز ففٹی ففٹی نہیں بلکہ ایک چوتھائی بھرا ہوا ہے۔
جہاز کے ٹیک آف ہوتے ہی جب ہم آسمان کی اونچائیوں میں اٹھے اور باہر دیکھا تو یہ احساس ہوا کہ بادل اور زمین وہی ہیں جو ہم سے پہلے بھی تھے اور ہمارے بعد بھی رہیں گے۔
اس دھرتی کے انسان ہی کورونا سے بیزار ہیں باقی سب مخلوق، چرند، پرند جو معصومیت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں یہ اس وبا اور اس کے خوف سے آزاد اور بے نیاز ہیں۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پر سکیورٹی کے مناسب انتطامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ (فوٹو: اے پی پی)

جس طرح ہم کراچی اترے اور ایئرپورٹ پر پہنچے تو ایک اور اہم احساس ہوا اور وہ تھا گورننس کا۔ گورننس وہ ہوتی ہے جہاں ملک یا نظام کو چلانے والے کو اپنی قوم کی پہچان یا جانچ ہو۔ وہ نہ صرف قانون بناتے ہیں بلکہ عوام کو اس پر چلانے کا علم بھی رکھتے ہیں۔
کراچی کے ایئرپورٹ میں داخل ہوتے ہی حفاظتی سوٹ میں موجود ورکر ایک ایک مسافر کو اچھے طریقے سے جراثیم کش سپرے کر رہے تھے، ٹمپریچر چیک کرنے کی قطاریں الگ لگی ہوئی تھیں اور سماجی فاصلے پر سختی سے عمل درآمد کروایا جا رہا تھا۔ جلدی کرنے یا آگے گھسنے کے شوقینوں کو ایئرپورٹ حکام بڑے اچھے طریقے سے کنٹرول کر رہے تھے۔ بہرحال باہر نکلتے ہی ایک حقیقی لاک ڈاؤن کا احساس ہوا۔

کراچی پہنچنے کے بعد حقیقی لاک ڈاؤن کا احساس ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی جیسے شہر میں جہاں ہزاروں لوگ روزانہ اپنی کمائی کے لیے اچھے یا برے وقتوں میں اپنی جان پر کھیل کر بھی باہر نکلتے ہیں۔ دیکھا کہ آج وہی شہر بالکل سنسان اور ویران تھا۔ باہر کوئی بھی نہیں تھا سوائے ایک گارڈ کے۔
نہ رینٹ اے کار کی سروس، نہ لینے کے لیے آنے والوں کے جھمگٹے، نہ گرم گرم فرائز کی خوشبو اور نہ کوئی ٹیکسی تھی، جو پنجاب اور اسلام آباد میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ چل رہی تھیں۔
اپنی عمر کے اس لمبے سفر میں یہ منظر دیکھ کر مجھے، جو کہ اصل میں کراچی کی رہنے والی ہوں، کراچی کو اتنی روشنی میں کبھی اس طرح سوتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔۔ اور اسی وقت گورننس کا فرق اسی طریقے سے نظر آیا جس طرح پرانا کراچی اور کورونا کے زیرنگیں کراچی نظر آ رہا تھا۔

شیئر: