Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو سیلفی لی اور پوسٹ کر دی‘

افراج کا کہنا ہے کہ وہ کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار تھیں (فوٹو الشرق الاوسط)
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی کسی کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ مثبت آیا ہے تو اس کے چہرے کی رنگت گھبراہٹ سے بدل جاتی ہے۔
کئی افراد تو یہ سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ اب ان کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے مگر مصری نرس (افراج فتحی بکری) نے اس حوالے سے مختلف تاثر دے کر مصری ڈاکٹروں اور پورے معاشرے کو حیران کر دیا۔
اخبار الشرق الاوسط کے مطابق 32 سالہ مصری نرس کو جب جنوبی قاہرہ کے بنی سویف صوبے میں سینے کے امراض کے ہسپتال کے ڈائریکٹر نے محتاط لہجے میں یہ بتایا کہ آپ کو چند روز قرنطینہ میں گزارنے ہوں گے تو نرس کے چہرے کی رنگت نہیں بدلی بلکہ انہوں نے کہا کہ 'مجھے احساس تھا کہ کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ مثبت ہی آئے گا اور میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔'

نرس کے والد کی بھی کورونا کی وجہ سے موت ہوگئی تھی (فوٹو: سوشل میڈیا)

نرس نے فوری طور پر ہسپتال کے ڈائریکٹر کے ساتھ سیلفی بنائی اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔
افراج فتحی بکری 16 دن قرنطینہ میں گزار کر پھر ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کی خدمت کا اجازت نامہ ملنے کی منتظر ہیں۔
مصر میں 100 سے زیادہ طبی عملے کے افراد وائرس کی زد میں آچکے ہیں۔ ان میں سے 10 کی موت بھی واقع ہوچکی ہے.
افراج بکری کا کہنا ہے کہ ’میں مانتی ہوں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے. موت کہیں بھی اور کسی طرح بھی آسکتی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ گھر والوں کو جونہی میرے کورونا میں مبتلا ہونے کی اطلاع ملے گی تو سب کے سب پریشان ہو جائیں گے۔ وہ پہلے سے ہی اس بات کے مخالف تھے کہ میں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہوں‘۔
افراج نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’گھر والوں کا خوف ٹھیک تھا کیونکہ خود میرے ساتھ کام کرنے والی نرسیں اور ڈاکٹر بھی حفاظتی لباس کی قلت کی وجہ سے خدشات کا شکار تھے اور ہیں‘.
افراج نے بتایا کہ 'جب گھر والوں کا دباؤ بڑھا تو ہسپتال کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ میری رہائش کا انتظام میڈیکل سینٹر میں کر دیا جائے تاکہ وائرس گھر منتقل نہ ہو اور گھر والوں سے کہہ دیا کہ مجھے ہسپتال کی طرف سے حکم ملا ہے کہ رہائش ہسپتال میں ہی رکھو. کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال نہ کرنے کی صورت میں ہسپتال والوں نے مجھے برطرف کرنے کی دھمکی بھی دی ہے. گھر والے یہ سن کر مجبور ہو گئے اور اس طرح مجھے کورونا کے مریضوں کی خدمت کا موقع مل گیا۔'
افراج بتاتی ہیں کہ 'جس روز کورونا ٹیسٹ لیا گیا اس دن میں چلتے ہوئے لڑکھڑا رہی تھی۔ تھکاوٹ بہت زیادہ تھی۔ گلے میں گھٹن تھی۔ ہسپتال کے ڈائریکٹر نے مجھ سمیت طبی عملے کے بہت سارے لوگوں کی حالت بھانپ لی تھی۔
مصری نرس کا کہنا تھا کہ 'میرا تعلق بنی سویف کے اھوت قریے سے ہے۔ میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں ہوں۔ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی خبر گھر والوں پر بجلی بن کر گری۔ دو ماہ قبل ہی والد وائرس سے متاثر ہو کر ہلاک ہو چکے تھے۔ گھر والوں کو یقین ہو گیا تھا کہ اب میں ان سے کبھی زندہ نہیں مل سکوں گی۔
افراج کا کہنا تھا ’میں نے 16 دن قرنطینہ میں گزارے۔ وہاں میں نے انٹرنیٹ پر کتابوں اور افسانوں کا خوب مطالعہ کیا- 17 سالہ نرسنگ کا تجربہ کام آیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب میں ٹھیک ہوں. کمزوری محسوس کر رہی ہوں لیکن جلد ہی کورونا ہسپتال واپس جاکر مریضوں کی خدمت کرنا چاہوں گی‘۔
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: