Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل بدھ کو غزہ کے لیے اہم امدادی گزرگاہ کھولے گا

توقع ہے کہ اسرائیل بدھ کو غزہ کی واحد سرحدی گزرگاہ کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے گا تاکہ امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت تباہ حال علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچائی جا سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے کان کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ گزرگاہ کو عنقریب دوبارہ کھولا جائے گا ہے۔
عزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت آخری 20 زندہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل نے تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے، جبکہ لڑائی اور بمباری کو بھی روک دیا گیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے بدھ کے روز کہا کہ وہ مصر اور غزہ کے درمیان امداد کے لیے کلیدی سرحدی گزرگاہ کو چلانے کے لیے تیار ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے خصوصی ایلچی محمد اشتیہ نے کہا کہ ’اب ہم دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہیں، اور ہم نے تمام فریقوں کو اطلاع دے دی ہے کہ ہم رفح کراسنگ کو چلانے کے لیے تیار ہیں۔‘
اب تک حماس نے آٹھ لاشیں واپس کی ہیں جن میں سے سات کی شناخت ہو چکی ہے۔ مزید 20 لاشیں ابھی غزہ میں موجود ہیں، اور اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پر اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ امداد کی فراہمی کو ان لاشوں کی واپسی سے مشروط کیا جائے۔
تمیر نمروڈی کے والد الون نمروڈی نے فیس بک پر لکھا کہ ’ناقابلِ برداشت غم کے ساتھ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ میرے بڑے اور پیارے بیٹے تمیر کی لاش غزہ سے واپس لائی گئی ہے‘
تمیر ایک 18 سالہ فوجی تھا جسے غزہ کی سرحد پر قائم فوجی اڈے سے پکڑا گیا تھا۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس اب بھی اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں واپس نہیں کرتی تو وہ غزہ کے لیے امدادی سامان بند کر دیں گے۔
کان کے مطابق، اسرائیل نے رفح کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب اسے اطلاع ملی کہ حماس مزید چار لاشیں بدھ کے روز واپس کرے گی، تاہم اس کی حماس کی جانب سے باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی۔

امدادی ٹرک

7  اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہونے والی جنگ نے غزہ میں شدید انسانی بحران پیدا کر دیا تھا۔ یہ گنجان آباد علاقہ امداد پر منحصر ہے جو اکثر محدود یا بند کر دی جاتی تھی۔
اگست کے آخر میں اقوام متحدہ نے غزہ میں قحط کا اعلان کیا، تاہم اسرائیل نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
کان نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ بدھ کے روز 600 امدادی ٹرک اقوام متحدہ، منظور شدہ بین الاقوامی تنظیموں، نجی شعبے اور امدادی ممالک کی جانب سے غزہ بھیجے جائیں گے۔
امداد کی واپسی، ٹرمپ کے غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبے میں شامل ہے۔
اسی منصوبے میں حماس کے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، جسے تنظیم نے مسترد کر دیا ہے۔ حماس 2007 سے غزہ کی حکمران فلسطینی جماعت رہی ہے۔
غزہ میں تنظیم نے تباہ شدہ شہروں پر اپنی گرفت مزید سخت کر دی ہے، مبینہ ’غداروں‘ کے خلاف کارروائیاں اور سزائے موت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
حماس نے اپنے سرکاری چینل پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں آٹھ آنکھوں پر پٹی بندھے قیدیوں کو گھٹنے ٹیک کر سڑک پر گولی مار کر ہلاک کرتے دکھایا گیا ہے۔ گروپ نے انہیں ’غدار اور قانون شکن‘ قرار دیا۔
شمالی غزہ میں، جب اسرائیلی افواج غزہ سٹی سے واپس ہوئیں، تو حماس حکومت کی سیاہ نقاب پوش پولیس نے دوبارہ سڑکوں پر گشت شروع کر دیا۔
غزہ میں ایک فلسطینی سیکیورٹی ذریعے نے کہا کہ ’ہمارا پیغام واضح ہے: قانون شکنوں یا شہریوں کی سلامتی کے دشمنوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔‘
غزہ کے شہریوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی  سے گفتگو میں اس کریک ڈاؤن کا خیر مقدم کیا۔
34 سالہ ابو فادی البنّا نے وسطی غزہ کے شہر دیر البلح میں کہا کہ ’جب جنگ ختم ہوئی اور پولیس نے سڑکوں پر گشت شروع کیا تو ہمیں دوبارہ امن محسوس ہوا۔‘
اسرائیل اور امریکہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مستقبل کی کسی بھی غزہ حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔

شیئر: