Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تین ماہ میں 4 ارب ڈالر کمانے والے کی کہانی

49 سالہ ایریک یوان نے سیلیکون ویلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فوٹو:الرجل
محض چند ہفتوں میں ہی دنیا بھر میں کام کرنے کے طریقے بدل گئے  پہلے دفتری یا کاروباری میٹنگز کا تصور کانفرنس روم یا ہالز کے بغیر ناممکنات میں تھا اب گھروں کے باورچی خانے ، بیڈرومز یا ڈرائنگ رومز نے انکی جگہ لے لی ہے۔
کورونا وائرس کے سبب دنیا کی تبدیل ہونے والی صورتحال نے لوگوں کو گھروں کی حد تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں کاروباری اور ادارتی میٹنگز کے لیے بیشتر اداروں اور لوگوں نے آن لائن کام کے لیے ’زوم ‘ کاانتخاب کرنا شروع کردیا۔
بلومبرگ میں ارب پتی افراد کے حوالے سے شائع کی جانے والی خبر کے مطابق امریکی کمپنی زوم کے آپریشنل ڈائریکٹر ایریک یوان نے محض تین ماہ کی قلیل مدت میں چار ارب ڈالر کمائے جس کے ساتھ ہی ان کی مجموعی دولت 7.75 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔
 ’زوم ‘ کے صارفین جو صرف 10 ملین ہوا کرتے  تھے گذشتہ دسمبر میں انکی تعداد 200 ملین تک پہنچ گئی اور یہ صرف موجودہ وبائی مرض ’نئے کورونا وائس‘ کی وجہ سے ہوا جس نے دنیا بھر میں لوگوں کو گھروں تک محدود کرتے ہوئے اس امر پر مجبور کردیا کہ وہ گھروں میں ہی رہتے ہوئے اپنے کاروباری اور دفتری امور انجام دیں۔

محنتی نوجوان

49 سالہ ایریک یوان کا شمار ان  امریکی دراصل چینی شہریوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیلیکون ویلی کے میدان میں نمایاں کمپنیوں میں اہم کردار ادا کیا اور نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
یوان چین کے صوبے شیڈونگ میں پیدا ہوئے انکے والدین انجینئرنگ کے پیشے سے منسلک تھے یعنی یوان کو وراثت میں یہ پیشہ ملا۔

چند ہی مہینوں میں زوم کے صارفین 10 ملین سے بڑھ کر 200 ملین ہوگئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

یوان نے ریاضی میں گریجویشن کی بعدازاں انجینئرنگ میں ماسٹر کرنے کے بعد جاپان میں چار برس تک کام کیا تاہم وہ مزید آگے بڑھنے کےلیے امریکہ منتقل ہو گئے جہاں کیلی فورنیا میں انہوں نے ایک بڑی انٹرنیٹ کمپنی میں خدمات کا آغاز کیا، یوان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بلی گیٹس کی ایک تقریر سے متاثر ہو کر انٹرنیٹ کے شعبے کا انتخاب کیا تھا جس میں انہوں نے مستقبل  میں انٹرنیٹ کے بارے میں بہت کچھ کہا تھا۔'

امریکی ویزے کے لیے آٹھ بار ناکامی

یوان کا کہنا تھا کہ امریکی ویزا حاصل کرنے کےلیے انہیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آٹھ بار ناکامی کے بعد بالاخر نویں بار انہیں ویزا جاری کردیا گیا اور وہ 1997 میں امریکہ منتقل ہو گئے اس وقت انکی عمر 27 برس تھی۔

یوان کہتے ہیں جب وہ امریکہ گئے ان کی عمر 27 برس تھی۔ فوٹو: الرجل

زوم کا خیال کیسے آیا؟

یوان کا کہنا تھا کہ ’زوم‘ بنانے کا خیال انتہائی نجی ضرورت کی تکیمل تھی۔ 2017 میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں ایریک یوان نے اپنے ماضی سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ’یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نوجوان تھا اور دیگر نوجوانوں کی طرح میں بھی ایک دوشیزہ کے عشق میں مبتلا تھا مگر ہمارے درمیان 10 گھنٹے کا طویل سفر حائل تھا، اس دوری کو کم کرنے اور 10 گھنٹے کے سفر کی کوفت کو ختم کرنے کے نتیجے میں زوم وجود میں آیا۔'
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ یوان کے اس آئیڈیا نے زوم ٹیکنالوجی کی تخلیق کی جس پر آج بڑے بڑے سرمایہ دار اور اہم عہدوں پر فائز لوگ مکمل اعتماد کرتے ہوئے اس کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی موجود اپنے کارکنوں اور عہدیداروں سے براہ راست رابطہ کررہے ہیں.

زوم ٹیکنالوجی کی تخلیق پر آج بڑے بڑے سرمایہ دار اور اہم عہدوں پر فائز لوگ مکمل اعتماد کیے ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

مشکل آغاز
یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ کسی بھی کام کا آغاز آسان نہیں ہوتا ابتدا میں ہرایک کو مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے زندگی کی اسی حقیقت کا سامنا یوان کو بھی کرنا پڑا جب انہوں نے پروگرام کا آغاز کرنا چاہا تو معاشی مسائل ان کے سامنے سر اٹھا کر کھڑے تھے جن پر قابو پانا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ یوان ’سیسکو سسٹمز‘ میں کام کرتے تھے جہاں ان کا اپنے ڈائریکٹر سے ٹیکنیکل مسئلے پراختلاف ہو گیا جس پر انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
سیسکو سسٹمز آن لائن میٹنگز کے سافٹ ویئر پروگرامز کے فیلڈ سے متعلق تھی اور وہ جس منصوبے پر کام کررہے تھے یوان بھی اسی سے منسلک تھے مگر وہاں انکے سینئر نے انکی بات نہ مانی جس پر کمپنی کو بعدازاں کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ تین برس بعد ہی کمپنی پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ یوان نے جس مسئلے کی جانب توجہ دلائی تھی اور اسے نہیں مانا گیاتھا وہ درست تھا۔

یوان کے سامنے مسائل کا پہاڑ سراٹھائے کھڑا تھا۔ فوٹو: الرجل

یوان نے سیسکو سسٹمز کو خیر باد کہ دیا مگر اب انکے سامنے ایک مسئلہ تھا کہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے فنڈز کہاں سے حاصل کیے جائیں۔ اس کے لیے انہوں نے رشتہ داروں اور دوستوں کے سامنے اپنا منصوبہ رکھا اگرچہ یہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کے لیے بے شمار سائٹس موجود ہیں ایسے میں ایک نئے منصوبے کےلیے خطیر رقم لگا دینا کہاں کی دانشمندی ہوسکتی ہے.
لوگوں کا خیال تھا کہ جو منصوبہ یوان نے ان کے سامنے رکھا ہے وہ مارکیٹ میں کہاں تک اپنا مقام بنا سکے گا؟ کیا اس نئی ٹیکنالوجی کو گلوبل ولیج میں پذیرائی بھی مل سکے گی یا نہیں؟
یوان کے سامنے مسائل کا پہاڑ سراٹھائے کھڑا تھا کیونکہ اچھی خاصی نوکری کو خیر باد کہہ دینے کے بعد کوئی اور ذریعہ معاش بھی نہیں رہا تھا ایسے میں رشتہ دار اور دوستوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا حد تو یہ تھی کہ جب یوان نے اہلیہ کو نوکری چھوڑدینے کا بتایا تو انہوں نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی۔

دنیا میں ’زوم ‘ نے محدود وقت میں کس قدر کامیابی حاصل کی۔ فوٹو:الرجل

یوان نے ان تمام مسائل کے باوجود ہمت نہ ہاری اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے نئے سرمایہ کاروں کی تلاش شروع کردی بالاخر انہوں نے ثابت کردیا کہ جس طویل اور تھکا دینے والے سفر کا انہوں نے تنہا آغاز کیا تھا آج کہاں تک اس میں کامیابی ہوئی اور دنیا میں ’زوم ‘ نے محدود وقت میں کس قدر کامیابی حاصل کی۔
ایک انٹرویو میں یوان نے کہا ’ نوکری ترک کرنے کے بعد جب اہلیہ کو اپنے ارادے سے مطلع کیا، انہوں نے بھی نوکری چھوڑنے کی مخالفت کی تو میں نے کہا تھا مجھے علم ہے کہ یہ ایک طویل اور انتہائی مشکل سفر ہو گا اور اگر میں اسے شروع نہ کرسکا توہمیشہ پشیمان ہی رہوگا۔'

شیئر: