Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے سبب آن لائن خریداری میں تیزی

’ایک ہفتے میں آن لائن کاروبار میں تین سو گنا تک اضافہ ریکارڈ ہوا۔‘ فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس کے خدشے اور سوشل میڈیا پہ چلنے والی خبروں کے پیشِ نظر جہاں ایک طرف مارکیٹوں میں عوام کی آمد میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے، وہیں آن لائن اشیاء فروخت کرنے والی کمپنیوں کے کاروبار میں اچانک تیزی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
سودا سلف اور روزمرہ اشیاء فروخت کرنے والے آن لائن شاپنگ پورٹل ہم مارٹ کے سی سی او فیصل قیوم نے اردو نیوز کو بتایا کہ پچھلے ایک ہفتے میں ان کے کاروبار میں تین سو گنا تک اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتوار کے دن  کاروبار 284 فیصد تک بڑھ گیا۔
فیصل قیوم نے بتایا کہ آن لائن فروخت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ انہوں نے ڈیلیوری کے لیے مزید ہائرنگ شروع کردی ہے جبکہ ساتھ ہی ڈیلیوری سروسز، جیسے کہ ’بائکیا‘ سے بھی معاہدہ کر رہے ہیں تا کہ آرڈرز کی بروقت ترسیل ممکن بنائی جا سکے۔
ایک سوال کے جواب میں فیصل قیوم کا کہنا تھا کہ ویسے تو تمام اشیاء پہلے بھی فروخت ہو ہی رہی تھیں، مگر کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کے باہر نکلنے میں کمی کے بعد سبزیوں کے فروخت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
آن لائن ڈیلیوری سروس بائکیا نے بھی صحت و صفائی کی اشیاء ڈیلیور کرنے کے لیے الگ سے ڈیلز متعارف کروا دی ہیں جس کے ذریعے صارفین ہینڈ واش، سینیٹائزرز اور دیگر اشیاء منگوا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آن لائن آرڈر کر کے گھر کا سامان منگوایا جا سکتا ہے، بلکہ مختلف ڈیلز اور آفرز کی موجودگی میں یہ مارکیٹ سے کم قیمت پہ بھی دستیاب ہے۔
ہم مارٹ کی ویب سائٹ پر پہلے ایک دن میں آرڈر ڈیلیور ہونے کا لکھا ہوتا تھا، تاہم موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر انہوں نے پر نوٹ لکھ دیا ہے کہ آرڈرز میں اضافے کے سبب دو دن سے کم وقت میں آرڈرز ڈیلیور نہیں ہو سکیں گے۔
موجودہ صورتحال میں آن لائن پورٹل کے ذریعے خریداری میں اضافے کے رجحان کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں دیگر برانڈز اور رٹیل آؤٹ لیٹس کاروبار میں کمی کا بتا رہے ہیں، وہیں آن لائن مارکیٹ دراز اور فوڈ ڈیلیوری سروس فوڈ پانڈا نے نئی ڈیلز کی تشہیر شروع کردی ہے۔

کراچی کے شاپنگ مالز میں بھی عوام کی آمد میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

 اردو نیوز نے اس حوالے سے جب فوڈ پانڈا کی ترجمان طوبیٰ مستری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے خدشات اور اس کے تناظر میں اضافی سرگرمیوں کے پیشِ نظر ان کی کمپنی نے تمام رائڈرز کو احتیاطی تدابیر کی آگہی فراہم کی ہے۔
رائڈرز کے بیٹھنے کی جگہ پر ہینڈ سینیٹائزر بھی مہیا کیے ہیں جبکہ انہیں ماسکس پہننے کی بھی تاکید کی ہے۔ البتہ، طوبیٰ مستری نے اس حوالے سے مزید معلومات فراہم نہیں کیں کہ گزشتہ ایک ہفتے میں آرڈرز کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اضافی آرڈرز اور ورک فلو کی تیزی سے نمٹنے کے لیئے اقدامات کرلیے گئے ہیں۔
ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے ہنگامی اقدامات  کے ساتھ ساتھ عوامی اجتماعات پر پابندی کے علاوہ شاپنگ مالز اور ریستوران بھی قبل از وقت بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ حکومتی احکامات پہ تعلیمی اداروں کے علاوہ مزارات بھی بند کردیے گئے ہیں۔
ان تمام اقدامات کا معاشی سرگرمیوں پہ براہ راست اثر پڑا ہے اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سکولوں کی اچانک بندش سے سکول وین ڈرائیورز، کینٹین مالکان اور تعلیمی اداروں کے باہر پھیری لگانے والے افراد متاثر ہوئے ہیں۔

’تین ہفتے کے لیے شادی ہالز کی بندش سے لاکھوں کا نقصان ہو رہا ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

وین ڈرائیور فیصل شمس نے اردو نیوز کو بتایا کہ سکولوں کی بندش کی وجہ سے والدین سے انہیں فروری کی ادائیگی نہیں کی اور چھٹیوں میں مئی تک اضافے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسری جانب بہت سے وین والوں نے والدین کو پیشگی واؤچر گھر پہ بھجوا دیے ہیں تا کہ چھٹیوں کی فیس کی ادائیگی ہو سکے۔
وفاقی حکومت کے احکامات کی روشنی میں صوبائی اور ضلعی انتظامیہ نے شادی بیاہ کے ایونٹس پہ مکمل پابندی لگا دی ہے، جس کے نتیجے میں شادی ہالز میں کام کرنے والے دیہاڑی مزدور اور ویٹرز متاثر ہوئے ہیں۔
آل کراچی میرج ہالز ایسوسیشن کے سربراہ رانا رائیس کا کہنا ہے کہ تین ہفتے کے لیے شادی ہالز کی بندش کا باعث تمام ہال مالکان ایڈوانس واپس کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں لاکھوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اپریل میں رمضان شروع ہو جائے گا جس میں شادیاں نہیں ہوتیں،ایک طرح سے ہم دو مہینے کے لیے فارغ ہوگئے ہیں۔‘
سانگھڑ سے مزدوری کے لیے کراچی آئے اظہر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے گاؤں سے کافی لوگ کراچی کے شادی ہال میں ویٹر اور ہلپنگ سٹاف کے طور پہ کام کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ رمضان تک مزدوری کر کے گھر والوں کے لیے عید سے پہلے پیسے بھیجنا چاہتے تھے لیکن شادی ہال بند ہونے کی وجہ سے ان کی روزی متاثر ہوئی ہے۔

مالز میں قائم فوڈ کورٹس میں عوام کا رش معمول سے نصف ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

 دوسری جانب کراچی کے شاپنگ مالز میں بھی عوام کی آمد میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
کراچی کے سب سے بڑے شاپنگ مال ڈولمین کلفٹن میں قائم کپڑوں کی معروف برانڈ کے سیلز مینیجر نے اردو نیوز سے خریداروں کی آمد کا ڈیٹا شیئر کیا۔ فراہم کردہ معلومات کے مطابق جمعے کو تقریباً تین ہزار خریدار اس دکان میں آتے تھے، تاہم اس ہفتے یہ تعداد محض ڈیڑھ ہزار رہی۔
ایسے ہی اتوار کے دن خریداروں کی آمد پانچ سے چھ ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی، تاہم اس ویک اینڈ پر یہ تعداد گر کر ساڑھے تین ہزار رہ گئی۔
شاپنگ مالز نے بھی اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کیے ہیں اور ساتھ ہی خریداروں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید کر رہے ہیں۔
ڈولمین مالز کی ترجمان پلوشہ سکندر نے اردو نیوز کو بتایا کہ شاپنگ مالز میں جگہ جگہ ہینڈ سینیٹائزر لگائے گئے ہیں جبکہ تھرمل سکینر بھی نصب کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالز میں کام کرنے والے تمام افراد کی ٹریول ہسٹری بھی چیک کی جا رہی ہے جبکہ مالز میں صفائی کے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

شاپنگ مالز نے بھی اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کیے ہیں اور ساتھ ہی خریداروں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید کر رہے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

کورونا وائرس کا اثر صرف اشیاء کی خریداری پہ نہیں ہوا بلکہ ریستوران بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ مالز میں قائم فوڈ کورٹس میں عوام کا رش معمول سے نصف ہے۔
طارق روڈ پہ قائم شاپنگ مال کے اہلکار نے بتایا کہ ویک اینڈ پہ لگ بھگ ہزار افراد ایک وقت میں فوڈ کورٹ میں کھانا کھاتے ہیں لیکن اس ویک اینڈ پہ آدھا فوڈ کورٹ خالی رہا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یومِ پاکستان پر لگ بھگ تمام برانڈز اور ریستوران کی جانب سے مختلف سیلز متعارف کروائی جاتی ہیں، معروف ٹیکسٹائل برانڈ کے سیلز مینیجر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس سال کورونا وائرس کے سبب ڈیلز اور سیلز نہیں متعارف کی جا رہی کیوں کہ خدشہ ہے کہ لوگ نہیں آئیں گے۔

شیئر: