Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کابینہ، ای سی سی ممبران کے خلاف بھی کارروائی ہوگی؟

قانونی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کا معاملہ نیب کو بھیجنا صرف ’نظر کا دھوکہ‘ ہے (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت نے گذشتہ پانچ سالوں میں چینی پر دی گئی سبسڈی کا معاملہ نیب کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
سنیچر کے روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن کے لیے 29 ارب روپے کی سبسڈی کا معاملہ نیب کو بھیجا جائے گا۔
لیکن قانونی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کا معاملہ نیب کو بھیجنا صرف 'نظر کا دھوکہ' ہے۔
شہزاد اکبر کے مطابق جن لوگوں نے چینی پر سبسڈی دینے میں کردار ادا کیا اور جن لوگوں نے سبسڈی لی، اگر انہوں نے قواعد کی خلاف ورزی کی تو اس کی بھی نیب تحقیقات کرے گا اور کارروائی کی جائے گی۔ 
وفاقی حکومت کی جانب سے چینی ہر سبسڈی دینے کے معاملے پر تحقیقات کا دائرہ کیا کابینہ اور سبسڈی دینے والے فورم اقتصادی رباطہ کمیٹی (ای سی سی ) تک وسیع کیا جاسکے گا؟ اردو نیوز نے اس حوالے سے چند سوالات قانونی ماہرین کے سامنے رکھے ہیں۔ 
کیا نیب ای سی سی ممبران اور کابینہ ارکان کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے؟
سینئیر قانون دان رشید اے رضوی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب کابینہ یا ای سی سی ممبران کے خلاف کارروائی تو کر سکتی ہے، ’آئین میں صرف صدر، وزیر اعظم اور گورنر کو استثنی حاصل ہے کہ ان کے خلاف عوامی عہدہ رکھتے ہوئے کارروائی نہیں کی جاسکتی لیکن پانچ سالوں کی سبسڈی ہر ریفرنس بنانا اور پھر ٹرائل چلنا ، اس طرح تو یہ کیس سالوں سال مکمل نہیں ہو پائے گا۔‘
رشید اے رضوی کے مطابق حکومت پہلے اپنے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی، اس کے بعد پچھلے پانچ سالوں کی تحقیقات کی جاتی، ’اب اس معاملے سے کچھ نکلتا ہوا نظر نہیں آتا یہ صرف نظر کا دھوکا ہے۔‘

خالد رانجھا کے مطابق ’حکومت کو کارروائی کرنا چاہیے تھی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

رشید اے رضی کے مطابق نیب کے پاس بطور ادارہ اتنی استعداد کار بھی نہیں کہ وہ مختلف ادوار میں دی گئی سبسڈی کے حوالے سے تحقیقات کر سکیں۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایف آئی اے کی سربراہی میں جب انکوائری مکمل ہو چکی ہے اور ذمہ داران کا تعین کیا جا چکا ہے تو پھر معاملہ نیب کو بھیجنے کا سپرد کرنے سے دوبارہ انکوائری شروع ہو جائے گی۔
 ’اگر رپورٹ مکمل ہے اور اس میں ذمہ داران کا تعین کیا جا چکا ہے تو پھر تو ریفرنس نہیں بنتا بلکہ حکومت کو کارروائی کرنا چاہیے تھی۔‘
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق ایف آئی اے کی شوگر انکوائری رپورٹ خود ایک چالان کی حیثیٹ رکھتا ہے ’حکومت کو ذمہ داران کے خلاف  گواہوں اور شواہد کے ساتھ چالان پیش کرنا چاہیے تھا اور قانون کے مطابق جو سزائیں بنتی ہیں وہ دینی چاہیے تھیں۔‘
ان کے مطابق چینی سبسڈی پر تحقیقات کا معاملہ نیب کو بھیجنے سے دوبارہ انکوائری شروع ہوگی اور اس میں سے کچھ نہیں نکلنا کیونکہ نیب قوانین کے  مطابق یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ سبسڈی دینے سے کسی کو براہ راست مالی فائدہ حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈی دینے کا اختیار ای سی سی اور کابینہ کے پاس موجود ہے ’نیب کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کابینہ یا ای سی سی کے کسی رکن نے شوگر مالکان کو براہ راست فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دینے میں کردار ادا کیا، جو کہ ثابت کرنا ناممکن نظر آتا یے۔‘
’چینی بحران: اختیارات کے ناجائز استعمال کا بہترین کیس‘

عمران شفیق کے مطابق چینی بحران نیب میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک بہترین کیس بن سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سینئیر قانونی ماہرین کی رائے کے برعکس سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق سمجھتے ہیں کہ چینی بحران نیب میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک بہترین کیس بن سکتا ہے۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ ’تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملز مالکان جو کہ حکومت میں بااختیار ہیں انہوں نے ایسے فیصلے کیے کہ مالی طور پر ان کو فائدہ حاصل ہوا اور یہی نیب قوانین میں کرپشن کی تعریف ہے۔‘
قومی احتساب بیورو کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کے مطابق ’قانونی طور پر کارروائی عمران خان کے خلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق وزیراعظم کی سربراہی میں وفاقی کابینہ ہی دیتی ہے۔‘
’اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملز مالکان کو چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور جنہوں نے اجازت دی ان کو مالی فوائد ہوئے ہیں اور یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا بہترین کیس ہے۔‘
لیکن سابق وزیر قانون خالد رانجھا سمجھتے ہیں کہ نیب کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کہ ملز مالکان نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے سبسڈی حاصل کی، کیونکہ ملز مالکان براہ راست کسی بھی فورم کا حصہ نہیں تھے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ نیب کے پاس یہ کیس جانے کے بعد دیگر منی لانڈرنگ کیسز کی طرح طویل ہو جائے گا اور اس سے کچھ نہیں نکلنا۔‘

شیئر: