Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں نے اپنے والد کو کھو دیا، وہ میرے لیے دنیا تھے‘

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں اشوانی جین نامی ایک شہری کورونا وائرس کا شکار ہوئے تو حالت بگڑنے پر ان کے خاندان والوں نے متعدد ہسپتالوں سے ان کو داخل کرنے کی درخواست کی۔ تاہم بیڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہسپتال میں داخلہ نہ مل سکا وہ ایمبولینس میں ہی دم توڑ گئے۔
اشوانی جین کی 20 سالہ بیٹی کشش نے روتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا ’ان (حکام) کو پراہ ہی نہیں کہ ہم زندہ رہیں یا مر جائیں۔ ان کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن میں نے اپنے والد کو کھو دیا ہے، وہ میرے لیے دنیا تھے۔‘
کشش کے چچا ابھیشیک نے بتایا کہ مقامی حکومت کی جانب سے بنائی گئی ایک ایپ یہ نشاندہی کر رہی تھی کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے بیڈز خالی ہیں لیکن تمام ہسپتالوں نے اشوانی جین کو داخل کرنے سے انکار کر دیا۔
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں 12 سو افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں اور ہر دن ایک ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
انڈین میڈیا میں بھی کورونا وائرس کے ایسے مریضوں کی کئی دردناک کہانیاں رپورٹ ہو رہی ہیں جنہیں ہسپتال میں داخلے سے انکار کیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک حاملہ خاتون اس وقت انتقال کر گئیں جب ان کو داخل کرانے کے لیے مختلف ہسپتالوں میں لیجایا گیا۔
کورونا کا شکار ایک 78 سالہ شخص نے دہلی کی ہائی کورٹ میں وینٹیلیٹر کی فراہمی کے لیے درخواست دی لیکن اس معاملے پر کارروائی ہونے سے پہلے ہی ان کی موت ہوگئی۔

انڈیا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد نو ہزار کے قریب ہے۔
ہسپتالوں میں بیڈ اور جگہ نہ ملنے پر متعدد خاندانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے تکلیف دہ تجربات بیان کیے ہیں۔
مارچ میں لاک ڈاؤن کے نافذ ہونے کے بعد اشوانی کے خاندان نے بھی چھتوں اور بالکونیوں سے برتن بجا کر محکمہ صحت کے شعبے کے کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔
تاہم اب ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہو۔
کشش کا کہنا ہے کہ ’حکومت کچھ نہیں کر رہی، وہ ہمارے احساسات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔‘
اب اشوانی جین کے رشتے دار بھی اپنا کورونا ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں لیکن دہلی کی حکومت کی جانب سے صرف ان لوگوں کا ٹیسٹ ہوتا ہے جو کورونا وائرس کے زیادہ متاثرہ علاقے سے ہوں یا جن کے خاندان کے افراد میں کورونا وائرس کی علامات ہوں۔
مقامی حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ جولائی کے آخر تک دہلی میں 80 ہزار بیڈز کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ہوٹلوں اور شادی ہالوں کے منتظمین کو بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ان مقامات کو بوقت ضرورت ہسپتالوں میں بدلا جا سکتا ہے۔

بیشتر خاندانوںکا کہنا ہے کہ ہسپتال میں بیڈ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں ڈالرز دینے ہوتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے آٹھ ہزار 505 بیڈز اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں 14 سو 41 بیڈز مختص ہیں۔
کورونا وائرس سے متاثرہ خاندانوں کے مطابق ہسپتال میں بیڈ حاصل کرنے کے لیے ان سے بڑی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
ثمن گلاٹی کے والد کورونا وائرس کے مریض ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک پرائیویٹ ہسپتال کی جانب سے ایک بیڈ کے لیے ان سے 10 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں اتنی بڑی رقم اکھٹی کرنا مسئلہ تھا۔
’اگر اس کے بعد میں بیمار ہوگئی، میں کیا کروں گی کیا مجھے اپنی پراپرٹی بیچنی چاہیے یا پھر اپنے زیورات؟‘

ثمن گلاٹی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے 10 لاکھ روپے کی بڑی رقم اکھٹی کرنا مشکل تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا کے ایک ٹی وی چینل مرر ناؤ ٹی وی کے ایک سٹنگ آپریشن میں دکھایا گیا ہے کہ دہلی کے پانچ ہسپتال کورونا وائرس کے مریضوں سے داخلے کے لیے پانچ ہزار 250 ڈالرز سے زیادہ فیس مانگ رہے ہیں۔
دہلی کے وزیراعلیٰ نے پرائیویٹ ہسپتالوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ دستیاب بیڈز کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان ہسپتالوں کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔
ماہرین اس وبائی مرض سے متعلق انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
وائرالوجسٹ شاہد جمیل کے مطابق دوسرے بڑے شہروں کی طرح دہلی میں بھی کافی تعداد میں لوگوں کا ٹیسٹ نہیں ہوا۔ ابھی تک اس کی آبادی کے ایک فیصد حصے کا ٹیسٹ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے اس منطق کی سمجھ نہیں آتی کہ کیوں صرف علامات والے مریضوں کا ٹیسٹ ہو رہا ہے، اگر آپ ٹسیٹ نہیں کریں گے تو آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ وائرس کس حد تک وائرس پھیل چکا ہے۔'

شیئر: