Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ‘

یا ’مرا‘ تذکرہ کرے ہر شخص 
یا کوئی مجھ سے گفتگو نہ کرے
 
ہمارے ممدوح نے ’شکیل احمد ضیاء‘ کے اس شعر میں ’ترا‘ کو ’مرا‘ سے بدل دیا ہے۔ وہ زبان سے نہ بھی کہیں تو بھی ان کی’بدن بولی‘(body language) اس شعرکی ترجمانی کرتی ہے۔ گفتگو کے لیے اس کڑی شرط کا شکوہ کیا تو بولے:
 ’بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو‘۔
مطلب: ۔۔۔ ہم نے وضاحت چاہی۔
چمک کر بولے: 12کتابیں، 22 مقالات، 32 مضامین، 4 انٹرویوزاخبارات میں،2  ٹی وی چینلز پراور6 ایف ایم پر نشر ہوچکے ہیں۔ا

 

اس سے کیا ثابت ہوا ؟ ۔۔۔ ہم نے حیرت زدہ ہوکرپوچھا۔
’بات ثابت کی نہیں ثبوت کی ہے کہ ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘ ۔۔۔ اپنی عظمت کا قصیدہ پڑھتے ہوئے ان کی سانس چڑھ گئی اورسینہ دَنکھنی بن گیا۔ حواس بحال ہوئے تو بولے:’ اس کے علاوہ ساڑے چار ملکوں کی سیرکرچکا ہوں‘۔
یہ سب بجا ہے مگر ہر بار گفتگو آپ ہی کے حوالے سے کیوں ہو؟‘۔۔۔ ہمارا سوال اور حیرت دونوں برقرار تھے۔
جواباً چہرے پر کچھ ایسے تاثرات نمودار ہوئے جنہیں قیافہ شناس حقارت سے تعبیر کرتے ہیں، پھر خفگی کا ایک کڑوا گھونٹ بھرکربولے:’ بات کرنے والا کم سے کم ایک کتاب کا مصنف یا کوئی ایک ملک تو دیکھ چکا ہو کہ کچھ علمی گفتگو ہوسکے‘۔
ان کی اس بات پر ہمیں اکبرالٰہ آبادی یاد آگئے جو ایسے ہی کسی نفسیاتی کی ترجمانی ان الفاظ میں کر چکے ہیں:
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ 
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ 
خیر ہم نے مقابلے پر مصلحت کو اور لیٹنے پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور پوچھا:’ یہ ’ساڑھے چار ملک‘ والی بات سمجھ نہیں آئی‘۔
سوال سن کرکِھل اٹھے، بولے ’ایک مرتبہ شیطان پرسنگ باری کرنے گیا تھا، ایک بار سیلون میں چائے کی چسکیاں لینے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ اٹلی میں مجسموں کے نظارے اور دلی میں  دل والوں کے اشارے بھی دیکھ چکا ہوں۔
یہ تو چار ملک ہوئے؟ ۔۔۔ ہم نے انگلیوں پر ملک شماری کرتے ہوئے آگاہ کیا۔
چِڑ کر بولے: ’ تم ایک ہی شہرمیں کوہلو کے بیل کی طرح گھومتے رہے ہو۔ کبھی یورپ گئے ہوتے تو پتا ہوتا کہ جہاز پانی بھرنے کو دبئی میں بھی اسٹے کرتا ہے‘۔

مال کی حرص کو گناہ جانتے ہیں یوں لین دین میں تُو تکرار نہیں کرتے (فوٹو: ان سپلیش)

’ساڑھے چارملک‘ کی اس وضاحت کے بعد ہم خود کو ان کے سامنے پانی بھرتا محسوس کررہے تھے۔ ’پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات‘۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے ہم اپنے ممدوح کے دیگراوصاف بھی گِنا دیں جو وہ کسرِ نفسی یا  نفسا نفسی کی وجہ سے بیان نہیں کرتے۔ 
آپ لڑکپن ہی سے تعمیری ذہن رکھتے ہیں، سیکنڈ ایئر میں تھے جب برسرِعام پانی سے موٹرسائیکل چلانے کا ناکام تجربہ کیا تھا۔ وہ اس ناکامی کی وجہ تربیلا ڈیم کو قرار دیتے ہیں، جہاں پانی سے بجلی ’کشید‘ کرلینے سے پانی ’آختہ‘ ہوجاتا ہے۔
موصوف نے سیلانی طبیعت پائی ہے، دورِ طالب علمی میں اکثر برگِ آوارہ کی طرح راہوں اور شاہراہوں پر گھومتے پائے جاتے تھے۔ ان میں سیکھنے اورعبرت حاصل کرنے کا جوہرقابل موجود ہے۔
بعض کائیاں قسم کے پڑسیوں کے مطابق موصوف کئی بار صدر (کراچی) میں مخصوص مرض کی دوا فروش کے گراد گرد صف اول میں دیکھے گئے ہیں۔
مال کی حرص کو گناہ جانتے ہیں یوں لین دین میں تُو تکرار نہیں کرتے، بالخصوص بات ’دَین‘ کی ہو تو کامل سکوت برتتے ہیں۔ شہرت سے دور بھاگتے ہیں، اس لیے اخبار معمولی ہو تو بالکل لفٹ نہیں کرواتے کہ ’انٹرویو۔۔۔ ذریعۂ عزت نہیں مجھے‘ ،اگر کوئی مشہور چینل ہو تو انکار کرتے جان جاتی ہے کہ ’صاف انکار میں خاطر شکنی ہوتی ہے‘۔

 پھیری والے یہ امرود ’ملیر کے جام‘ اور ’جام پیڑے‘ کی صدائیں لگا کر بیچتے ہیں۔ (فوٹو: ان سپلیش)

گوگل کی ایجاد کے بعد ان کی دریافت کا سفر تیزتر ہو چکا ہے، چنانچہ ہرمرض کا علاج اورہر سوال کا جواب بذریعہ گوگل دیکر سائل کو حیران کردیتے ہیں۔ ایک روز ہم نے ’الٰہ آباد‘ سے متعلق اکبرالہٰ آبادی کے درج ذیل شعرکی وضاحت چاہی:
کچھ الہٰ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے
یاں دھرا کیا ہے بجزاکبر کے اورامرود کے
بے پروائی سے بولے: الہٰ آباد کا پتا نہیں البتہ کراچی میں ملیر کے امرود بہت مشہور ہیں۔ ایک زمانے میں دیہی ملیر میں امرود کے بہت سے باغ تھے ممکن ہے اب بھی ہوں۔
 پھیری والے یہ امرود ’ملیر کے جام‘ اور ’جام پیڑے‘ کی صدائیں لگا کر بیچتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی ہند میں بھی امردو کو ’جام ‘ کہا جاتا ہے۔ جنوبی ہند ہی کی ایک اہم  زبان ’تِلگو‘ میں اس ’جام‘ کی ایک صورت جاما (జామ/Jāma) ہے۔ جب کہ مشرق بعید میں بولی جانے والے ایک بڑی زبان Malay میں امرود کو جامبو(jambu) کہتے ہیں، جو لفظ ’جام یا جاما‘ کی اصل ہے۔ 
برصغیرمیں امرود پرتگیزیوں نے متعارف کروایا، وہ یہ پھل امریکا سے لائے تھے۔ ’صراحی نما‘ یہ پھل دکھنے میں کچھ ’ناشپاتی‘ جیسا تھا اور’ناشپاتی‘ کو فارسی میں ’امرود‘ کہتے ہیں، لہٰذا ہندوستان  بالخصوص شمالی ہند میں اس پھل کا نام ہی ’امرود‘ پڑگیا۔
بلکہ اس نام نے اس قدر قبول عام حاصل کیا کہ خود اہل فارس کو امردو بمعنی ناشپاتی سے دست بردار ہونا پڑا، اب وہاں’امردو‘ کو اول ’گوآوا‘ اور ثانیاً ’امردو‘ یا ’اَرمود‘ کہتے ہیں۔
اتنا کہہ کر ذرا دیر کو دِم لیا، پھرعالمانہ شان سے بولے : تم پوچھ سکتے ہو کہ ’ناشپاتی‘ کو ’امرود‘ کہنے والے اہل فارس اب ’ناشپاتی‘ کو کیا کہتے ہیں؟
پھر ہمارے کچھ بولنے سے پہلے بول پڑے۔’فارسی ہی میں ناشپاتی کا ایک نام ’ناک‘ بھی ہے، جو اردو اور بعض علاقائی زبانوں میں’ناکھ‘ نکھ ،’ناخ اورنخ‘ کی صورت میں رائج ہے۔ جب کہ فارسی میں ’ناشپاتی‘ کو ’گلابی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

 ہسپانوی میں یہ لفظ جنوبی امریکا کی مشہور زبان ’اراواک‘ (Arawak) کی راہ سے داخل ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

فارسی کا ’گوآوا‘دراصل انگریزی کا guava  ہے۔ یہ لفظ لہجے کے فرق کے ساتھ بہت سی یورپی اورغیر یورپی زبانوں میں موجود ہے، مثلاً فرانسیسی میں goyave، جرمن میں guave، اطالوی میں guaiava اورروسی میں гуайява / guayyava وغیرہ۔
یورپ میں اس لفظ کو متعارف کروانے کا سہرا ہسپانوی زبان کے سر ہے۔ ہسپانوی زبان میں اسے guayaba کہتے ہیں۔ جب کہ  ہسپانوی میں یہ لفظ جنوبی امریکا کی مشہور زبان ’اراواک‘ (Arawak) کی راہ سے داخل ہوا۔
گمان ہے کہ نو آبادیاتی دور میں کسی ہسپانوی نے مقامی باشندے سے درخت پر جھولتے پھل کا نام پوچھا، مگر وہ سوال درخت سے متعلق سمجھا اور جواباً اس نے ’گویابو‘(guayabo) کہا، جس کا مطلب ہے ’امرود کا درخت‘ اور یوں یہ پھل اسی نام سے دنیا بھر میں مشہورہو گیا۔ 
معلومات سے لبریز گفتگو کے بعد وہ خاموش ہوئے تو ہم نے بصد احترام ان سے اجازت چاہی۔ اس علمی گفتگو کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کی ذات سے متعلق افواہوں نے دم توڑ دیا۔ اب ہم ان کی علمیت اور سُروربارہ بنکوی کے اس شعر کے قائل ہوگئےہیں:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ 
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

شیئر: