Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جعلی لائسنس کا انکشاف،پی آئی اے کا 150 پائلٹ گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ

مشکوک لائسنس والوں میں سے ایک سو 50 کا تعلق پی آئی اے سے تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ ملک میں موجود آٹھ سو 60 ایکٹو کمرشل پائلٹس میں سے دو سو 62 پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں کیونکہ انہوں نے سول ایوی ایشن سے لائسنس لینے کے لیے اپنی جگہ کسی اور سے امتحان دلوایا۔
اس انکشاف کے بعد ہوائی سفر کرنے والے مسافروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور ملک میں سول ایوی ایشن اور ایئرلائن کی طرف سے پائلٹس کے معیار کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بتایا ہے کہ قومی ایئر لائن نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ان تمام 150 پائلٹس کو گروانڈ کر دے جن کے نام جعلی لائسنس کی لسٹ میں شامل ہوں۔
یہ 11 نومبر 2018 کی بات ہے جب پی آئی اے کا ایک اے ٹی آر طیارہ پنجگور ایئرپورٹ پر رن وے سے اتر گیا۔ خوش قسمتی سے جہاز کے اس حادثے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہوا تاہم جب معلوم ہوا کہ جہاز کے پائلٹ نے انتہائی بچگانہ غلطیاں کی تھیں جن کی توقع ایک ٹرینی پائلٹ سے بھی نہیں کی جا سکتی تو پی آئی اے نے اس کی انکوائری کروائی۔ پی آئی اے کی انکوائری میں پتا چلا کہ پائلٹ کا لائسنس مشکوک ہے۔ 

پاکستان کے وفاقی وزیر ہوا بازی نے قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

لائسنس جاری کرنے والی اتھارٹی یعنی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ کیا گیا اور اس کے بعد پی آئی اے نے براہ راست وزیراعظم عمران خان تک رپورٹ پہنچائی۔
وزیراعظم کی ہدایت پر ایک اعلیٰ سطحی انکوائری شروع کی گئی جس کو 15 ماہ تک خفیہ رکھا گیا۔ انکوائری میں سول ایوی ایشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور چند دیگر افسران شریک تھے۔ اس انکوائری میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے 262 پائلٹس ہیں جن کے لائسنس مشکوک ہیں اور ان میں سے 150 کا تعلق پی آئی اے سے تھا۔
 پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بدھ کو قومی ایئرلائن نے اپنے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے لسٹ ملنے پر ایئرلائن اپنے تمام ایک سو50 پائلٹس کو فضائی آپریشن سے روک کر گراونڈ کر دے گی۔ 

گزشتہ ماہ پی آئی اے کی پہلی فلائٹ اسلام آباد سے براہ راست امریکی شہر نیو جرسی تک اڑی۔ فوٹو: پی آئی اے ٹوئٹر

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے پاس 420 کے قریب پائلٹس ہیں جن میں سے 150 کو گراونڈ کرنے سے ایئرلائن کو اپنے آپریشن میں بھی مشکلات پیش آئیں گی۔ اردو نیوز کے سوال پر عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ کچھ فلائٹس کو کینسل بھی کرنا پڑسکتا ہے مگر مشکوک پائلٹس کو اڑنے نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مشکوک لائسنس والے پائلٹس عشروں سے جہاز اڑا رہے تھے اور کچھ کے لائسنس1995 میں جاری ہوئے تھے۔ مشکوک لائسنس جاری کرنے کا عرصہ 1995 سے 2013 تک کا تھا۔
پی آئی اے ترجمان کے مطابق مشکوک پائلٹس کے جعلی لائسنس اس طرح پکڑے گئے کہ انہوں نے خفیہ انکوائری اور ویری فیکیشن کے عمل کے دوران اپنے تمام ڈاکومنٹس پی آئی اے کو جمع کروائے۔ جب ان کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ لائسنس کے اوپر جو ٹیسٹ کی تاریخ  لکھی ہوئی تھی اس دن یا تو مذکورہ پائلٹ کمرشل جہاز اڑا رہے تھے یا بیرون ملک تھے یا اس ٹیسٹ کے مقام پر ہی نہیں تھے۔ 

پائلٹس کو لائسنس کیسے جاری کیا جاتا ہے

عبداللہ حفیظ کے مطابق ایک پائلٹ کے لیے موجود دور میں بنیادی کوالیفیکیشن اے لیول یا ایف ایس اسی ہوتی ہے جس کے بعد اسے فلائنگ سکول میں چھ ماہ تک تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے اور جہاز اڑانے کے 200 گھنٹے پورے کرنے ہوتے ہیں جس کے بعد انہیں کمرشل پائلٹ لائسنس جاری کیا جاتا ہے جسے (سی پی ایل) کہتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق اس کے بعد اگر پائلٹ کسی ایئرلائن میں نوکری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انہیں ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس یعنی ( اے ٹی پی ایل) حاصل کرنا پڑتا ہے وہ بھی سول ایوی ایشن ہی جاری کرتی ہے اس کے بعد ہر جہاز کے لیے ٹائپ ریٹنگ لینی ہوتی ہے جو سیمولیٹر یعنی جہاز جیسی کیفیت والی مشین پر ٹیسٹ لے کر اور جہاز اڑا کر حاصل کی جاتی ہے۔
مشکوک پائلٹس کے بنیادی لائسنس میں ہی مسئلہ تھا اور وزیر ہوا بازی کے مطابق انہوں نے امتحان خود پاس نہیں کیا تھا۔

شیئر: